کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 5
عنصر بھی یہی الزامت عائد کر رہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ صدر بھٹو کی قیامت میں جو لوگ آئے ہیں ، ان میں سیاسی شعور رکھنے والے باضمیر لوگوں کی بہت کمی ہے۔ بلکہ اب جو ملکی سیاسیات کے وارث بن گئے ہیں ، ان کا اپنا کوئی سیاسی ماضی بھی نہیں ہے اس لئے آج وہ قوم کی سیاسیات پر بوجھ بن رہے ہیں ۔ چنانچہ صدر بھٹو اس میدان میں نہ صرف تنہا رہ گئے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے بدنام بھی ہو رہے ہیں ۔ ہم نے پیپلز پارٹی کے تانے بانے سے یہ محسوس کیا ہے کہ ملک کے جس باضمیر طبقہ نے مسٹر بھٹو اور مسٹر مجیب کی قیادت میں چلنے سے انکار کیا تھا وہ کافی معنیٰ خیز تلمیح کی حیثیت رکھتا ہے اور بعد کے حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کے باہوش، باوضع اور باضمیر لوگوں کو اپنے اعتماد میں لینے میں ان دونوں رہنماؤں کی ناکامی دراصل انہی معنیٰ خیز تلمیحات کی صداقت کی دلیل ہے جن کی بناء پر ملک کے ہوش مند لوگوں نے ان سے اپنی برأت کا اظہار کیا تھا۔ بہرحال ان دونوں کی قیادت ملک کے لئے بابرکت ثابت نہیں ہوئی۔ ؎ ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا بنگلہ دیش کا فتنہ اتنا منحوس نکلا ہے کہ ہمارے ملک کے دو ٹکڑے کر کے بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔ اس منحوس کے وجود کی نحوست کی دلیل اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا منحوس تصور ہمارے ملک کے اندر بھی وسیع تر انتشار، بد اعتمادی اور انتہائی ذلت آمیز خلفشار کا باعث بن رہا ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر صدمہ ہوتا ہے کہ صدر بھٹو عموماً جو فیصلے کرتے ہیں عوام کو اعتماد میں لیے بغیر ’’ماحضر ماحول‘‘ کی ترنگ میں آکر، کر آتے ہیں ۔ صدرِ مملکت کو اتنا ’’دل پھینک‘‘ نہیں ہونا چاہئے۔ سوچ بچار اور صبر و تحمل کے ساتھ پیش آمدہ صورتِ حال کا جائزہ لینا، ان کا بنیادی طرزِ عامل ہونا چاہئے۔ دنیا کے اور بھی صدر مملکت ہیں ہم دیکھتے ہیں ، وہ تو اس قد ’’بے قابو‘‘ نہیں رہتے۔ باقی رہی یہ بات کہ پورا مغربی پاکستان اور اس کی قومی اسمبلی بھی اس کی مجاز نہیں کہ تنہا وہ بنگلہ دیش کے بارے میں کوئی فیصلہ داغے تو یہ بالکل بجا ہے کیونکہ اس سلسلہ میں مشرقی پاکستانی بھائیوں سے بھی مشورہ ضروری ہے وہ بھی اس معاملہ میں ہمارے ساتھ برابر کے شریک ہیں ۔ انہوں نے مجیب کو اس غرض کے لئے قطعاً ووٹ نہیں دیئے تھے کہ وہ متحدہ پاکستان کو خیر باد کہہ دیں ۔