کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 4
(۲) پاکستان جمہوری پارٹی شہر لاہور کے زیر اہتمام لاہور میں ایک جلسۂ عام ہوا جس میں پی ڈی پی کے رہنماؤں نے تقریریں کرتے ہوئے کہا کہ: ’’صدر بھٹو نے عوام یا قومی اسمبلی سے رجوع کیے بغیر اقوامِ متحدہ میں اپنے نمائندے کے ذریعے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا وعدہ کر لیا ہے جو کہ ان کی جمہوریت پر عدمِ یقین کی ایک مثال ہے۔ حالانکہ بنگلہ دیش کو پورے مغربی پاکستان کے عوام اور ان کی قومی اسمبلی بھی تسلیم کرنے کی مجاز نہیں ہے۔‘‘ نائب صدر جمہوری پارٹی رانا نذر الرحمٰن نے صدر بھٹو اور پیپلز پارٹی پر جو تبصرہ کیا ہ، وہ کافی جاندار اور وزنی ہے، انہوں نے کہا: جناب بھٹو اور ان کی پارٹی نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہمارا دین اسلام ہے، ہماری سیاست جمہوریت ہے اور ہماری معیشت سوشلزم ہے، ہم لوگوں کو روٹی، کپڑا اور مکان دیں گے اور انسانی شرف اور مساوات پر مبنی ایک نیا معاشرہ قائم کریں گے۔ اقتدار سنبھالے انہیں ایک سال کا عرصہ ہو گیا ہے۔ اور جہاں تک ان کے اسلام پر عمل پیرا ہونے کا تعلق ہے پوری قوم کے مطالبہ کے باوجود شراب، جوئے اور دوسری خلافِ شرع باتوں پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ جمہوریت نوازی کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف حزبِ اختلاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے بلکہ ان کی اپنی پارٹی میں اختلاف کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ پیپلز پارٹی نے حزبِ اختلاف کے جلسوں میں گڑ بڑ کا رواج ڈالا تھا لیکن ان کا خمیازہ اب انہیں خود بھگتنا پڑ رہا ہے۔ چنانچہ اب صدر بھٹو دوسروں کو مخالفانہ رائے تحمل کے ساتھ سننے کا سبق دے رہے ہیں ۔ سوشلزم کی حالت یہ ہے کہ صنعتکاروں اور مزدوروں ، دونوں کو متضاد باتوں سے خوش کیا جا رہا ہے۔ چینی، آٹا، چاول اور دوسری ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں جتنی اب ہیں ، اتنی کبھی نہ تھیں ۔‘‘ انہوں نے الزام لگایا کہ ’’ٹریڈنگ کارپوریشن نے جتنی چینی درآمد کی ہے وہ پارٹی کے ارکانِ اسمبلی چور بازاری میں فروخت کر رہے ہیں ۔ اسی طرح ہزاروں ایسے کارکنوں کو ڈپو بخشے گئے ہیں جو بوگس راشن کارڈوں پر چینی کی بلیک کر رہے ہیں ۔‘‘ (نوائے وقت ۴ دسمبر) جمہوری پارٹی کے رہنماؤں نے صدر بھٹو اور ان کی پارٹی پر جو الزامات عائد کئے ہیں وہ صرف پی ڈی پی کی طرف سے نہیں عائد کیے جا رہے بلکہ پورے ملک کے عوام کو ان سے یہ شکوہ ہے۔ یہاں تک کہ خود پارٹی کا باضمیر