کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 39
تالیف : ابو یحییٰ امام خاں نوشہری مرحوم کتابت و طباعت : گوارا۔ کاغذ سفید صفحات : 440 قیمت : 10 روپے ناشر : حافظ عبد الرشید اظہر سلفی، جامعہ سلفیہ لائل پور مسلمانوں نے بحیثیت قوم تاریخ دسیر کو اپنا پسندیدہ موضوع بنایا اور اس میدان میں ایسی گراں بہا خدمات انجام دیں کہ غیر مسلم مستشرقین تک سے داو وصول کی ہے۔ ڈاکٹر سپرنگر کا قول ہے کہ مسلمانوں کے علمی سرمائے میں ’’اسماء الرجال‘‘ ایسا علم ہے جس کی مثال کوئی دوسری قوم پیش کرنے سے عاجز ہے۔ برصغیر میں صوفیائے کرام اور شعراء کے کئی تذکرے لکھے گئے مگر علماء کے حالات کی طرف چنداں توجہ نہ دی گئی۔ اکبر کے زمانے میں ملّا عبد القادر بدایونی نے اپنی تاریخ میں اور بعد ازاں شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ’’اخبار الاخیار‘‘ میں علماء کے تراجم کے لئے چند اوراق مخصوص کئے ہیں ۔ ایسے اہلِ علم کی ضرورت تھی جو علمائے کرام کے تراجم اور تذکرے لکھتے۔ مولانا غلام علی آزاد بلگرامی نے ’’مآثر الکرام‘‘ اور ’’سجۃ المرجان‘‘ لکھ کر کسی حد تک اس غفلت کی تلافی کی۔ بعد میں مولانا عبد الحیٔ فرنگی محلی ’’طرب الاماثل‘‘، نواب صدیق حسن خاں ’’ابجد العلوم‘‘، اور ’’اتحاف النبلاء‘‘ لکھ کر ہندوستان کی علمی تاریخ منظرِ عام پر لائے۔ مولوی رحمان علی نے ’’تذکرہ علمائے ہند‘‘ مرتب کیا مگر تعصب سے کام لیتے ہوئے خانوادہ ولی اللٰہی کو صحیح مقام نہ دیا۔ دورِ جدید میں مولانا عبد الحیٔ لکھنوی نے بیس سال کی محنتِ شاقہ سے آٹھ ضخیم جلدوں میں ’’نزہت الخواطر‘‘ جیسا رفیع الشان تذکرہ لکھا۔ مندرجہ بالا تذکروں کے علاوہ مختلف علاقوں کے مشاہیر کے تذکرے بھی لکھے گئے جیسے تذکرہ کا ملانِ رام پور۔ وقائع عبد القادر خانی، تذکرہ مشاہیر مالواری، تذکرہ اہل دہلی وغیرہ۔ ان تذکروں میں بھی ضمناً علمائے کرام کے حالات آگئے ہیں ۔ اس روایت کو ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی نے مزید آگے بڑھایا اور علمائے حدیث کے حالات کو اپنا موضوعِ سخن قرار دیا۔ اس تذکرے میں انہوں نے غیر منقسم ہند میں حدیث و سنت کی عظیم الشان خدمات سر انجام دینے والوں کا ذِکر کیا ہے۔ جنہوں نے جذبہ اتباعِ سنت میں تصوف و فقہ کے علاوہ حدیث و سنت کی ترویج کے لئے ان تھک کوششیں کیں ۔ زیر مطالعہ تذکرے میں دو سو علمائے کرام کا تعارف کرایا گیا ہے۔ مرتب نے متقدمین کی کوششوں سے بھرپور استفادہ کیا ہے اور اپنے دور کے علماء کے حالات نہایت محنت سے جمع کئے ہیں ۔