کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 36
9. نجدد حجاز۔ علامہ رشید رضا مصری کی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ طبع ہو چکا ہے۔ 10. نثر اللاٰلی۔ حضرت علی کے اقوال کا پشتو ترجمہ ہے۔ اس کا آپ نے اردو میں بھی ترجمہ کیا تھا لیکن ہنوز طبع نہیں ہوا۔ 11. اسلام اور کمیونزم۔ پروفیسر ڈاکٹر احسان اللہ خان کے ایک انگریزی مقالے کا پشتو میں ترجمہ کیا۔ یہ بھی مطبوعہ ہے۔ 12. سیرت النبی (پشتو) یہ ایک عربی رسالے کا ترجمہ ہے جو کہ رسالہ ’’پشتو‘‘ کا بل میں 1932ء کے سال میں 11 قسطوں میں شائع ہوا۔ (ج 1 شمارہ 5 تا ج 2 شمارہ 4) 13. علامہ طنطاوی کی ’’تفسیر الجواہر‘‘ کا اردو میں ترجمہ شروع کر رکھا تھا اور جلد 2 تا 5 کا ترجمہ مکمل کر چکے تھے کہ زندگی نے اور مہلت نہ دی۔ یہ غیر مطبوعہ ہے اور آپ کے فرزندوں کی تحویل میں ہے۔ 14. کتابستان بمبئی کے لئے ’’قوتِ ارادی‘‘ کے موضوع پر ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ کیا۔ یہ چھپ نہ سکا۔ ان کے علاوہ مختلف مجلّات میں وقتاً فوقتاً آپ کے علمی مضامین اور تراجم اکثر شائع ہوتے رہتے تھے۔ تدریسی خدمات: آپ 1913ء سے 1943ء تک برابر تیس سال اسلامیہ کالج پشاور میں عربی اور پشتو پڑھاتے رہے اسی دوران 1930ء میں حج بیت اللہ کی سعادت سے بھی بہرہ یاب ہوئے۔ 1947ء میں دوبارہ لائبریری کی نگرانی کے لئے متعین کیے گئے اور خاص طور پر قلمی نسخوں اور نادر کتب کی نگہداشت آپ کے سپرد کی گئی۔ جون 1950ء میں اس فریضہ کی ادائیگی سے سبکدوش کر دیئے گئے۔ اسلامیہ کالج لائبریری سے فراغت پانے کے بعد، بھانہ ماڑی پشاور شہر کے صاحبزادہ فضلِ صمدانی صاحب کی دعوت پر ان کے کتب خانہ کی فہرست وغیرہ تیار کرنے کے سلسلہ میں ٹھہر گئے۔ اس علمی شغل میں مصروف تھے کہ تین دن کی مختصر سی علالت کے بعد 6 ذی الحجہ 1369ء مطابق ستمبر 1950ء کو تقریباً 11 بجے صبح خالقِ حقیقی سے جا ملے اور وصیت کے مطابق اسلامیہ کالج پشاور کے قبرسان میں دفن کئے گئے۔ آپ کی ذاتِ گرامی بہت فیض رساں تھی۔ بہتوں نے آپ سے بہت کچھ حاصل کیا اور بہت سے اب بھی آپ کی تصنیفات سے بہت کچھ حاصل کر رہے ہیں۔ آپ کی تصنیفی خدمات پر نظر ڈالیے اور پھر تدریسی خدمات کا اندازہ لگائیے۔ اس سے صاف معلوم