کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 32
اگر وہ ہی پاس ہے جس کی تلاش کے لئے سفرِ حیات کی ڈیوٹی ملی تو اس ’’خدمت‘‘ سے بڑھ کر اور ’’تقریبِ وصال‘‘ کیا ہو سکتی ہے۔‘‘ ؎ دل صاحب اولاد سے انصاف طلب ہے! سوال ہوا، بیٹا! ’’رب جان مانگتا ہے۔‘‘! جواب ملا، ’’حضور! تو پھر دیر کاہے کی؟ اگر دے کر بارِ امانت سے رہائی نصیب ہو جائے تو اور کیا چاہئے؟ فکر نہ کیجئے! یہ لیجئے! بیٹے نے پیشانی رب کے حضور زمین پر رکھ دی۔ باپ نے چھری چلا دی، بسم اللہ اللہ اکبر!‘‘ جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی!! حق توبہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا!! ہاں جناب! وہ آزری ہے اور یہ براہیمی۔ عمر تو ساری آزری میں گزر گئی، اب اگر ارادہ کر لیا ہے کہ براہیمی کا مزہ بھی چکھ لیں تو پھر بسم اللہ! پر یہ سوچ لیجئے! کہ یہ صرف ’’دنبہ اور چھترے‘‘ کے گلے پر چھری پھرنے کی ایک رسم نہیں ، ایک عہد بھی ہے، دعویٰ بھی ہے، حالات، وقت اور ایمان کا ایک تقاضا بھی ہے!