کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 31
پھر جب ان پر (یہ راز) کھلا کہ یہ (آزر) اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہ گئے۔ یٰقَوْمِ اِنِّيْ بَرِيْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ (پ۷۔ الانعام۔ ع ۹) یعنی اے قوم! میں ان سے بیزار ہوں جن کو تم شریک کرتے ہو۔ اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۔ (لہٰذا) میں نے تو ایک طرف کا ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کر دیا ہے جس نے زمین و آسمان بنائے میں تو شریک کرنے والا نہیں ہوں ۔ (حوالہ مذکورہ) بلکہ خدا کی راہ میں خویش و اقربا، قوم، ملک، جاہ و حشم اور چین و آرام بھی حائل ہوئے تو سب کو چھوڑ دیا بیوی اور بیٹے کی جدائی اور قربانی کی بات آئی و دیر نہ کی۔ جان پر کھیل جانے کی نوبت آئی تو یوں نثار ہوئے جیسے پروانہ۔ زندگی کا یہ وہ کیف اور رنگ و بو ہے کہ جس پر طاری ہو جاتا ہے، ’’حق کا راہی‘‘ کہلانے لگتا ہے اس کا سارا سفرِ حیاتِ سیر الی اللہ میں شمار ہوتا ہے: قَالَ اِنِّیْ مُھَاجِرٌ اِلٰي رَبِّيْ (عنكبوت ع ۳) کہا ميں (تو) اپنے رب كی طرف ہجرت كرتا ہوں ۔ اِنِّیْ ذَاھِبٌ اِلٰي رَبِّيْ (الصّٰفٰت۔ ع ۳) ميں (تو) اپنے رب كی طرف چلا ہوں ۔ رب کسی دنیاوی سمت اور جگہ میں نہیں ہے کہ آپ ادھر کو اُٹھ د وڑے ہوں وہ تو ہر جگہ ہے۔ اس لئے یہ ’’جانا‘‘ اللہ کے لئے سفر حیات جاری رکھنے کا نام ہے گویا کہ ’’سراپا رب کا ہو کر رہنا‘‘ رب کی طرف ہجرت کرنا ہے۔ یہ حج، کعبہ کا یہ پروانہ وار طواف، خدا کی راہ میں یہ صحرا نوردی، طاغوت کے خلاف جنگ جاری رکھتے ہوئے جمروں پر یہ سنگ باری، منیٰ میں قربانیوں کی یہ رسمِ کہن، سبھی کچھ اسی ’’مہاجر اور حق کے راہی‘‘ کے پاک نقوشِ پاک ہیں ۔ نقل را عقل باید۔ سوچ لیجئے! آپ کے یہ حج اور آپ کی یہ قربانیاں ، کیا اسی ’’ذہنِ زرخیز‘‘، ’’قلبِ اوّاہ‘‘ اور ’’دلِ بے داغ‘‘ کے نخچیر ہیں ؟ کیا اس کے پسِ پردہ وہی جذبہ، وہی حرارت وہی عشقِ بے پرواہ اور وہی بے قابو غیرت کار فرما ہے؟ اسوۂ ذبیح، اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِّاَبِیْهِ کے مطابق اسوۂ خلیل سے مختلف نہیں ہے۔ کم سنی میں حکم ہوتا ہے، یہ پُر رونق شہر اور بازار چھوڑ چھاڑ کر بے آب و گیاہ اور لق دق صحرا میں جا بسیں ! صدا آئی! حاضر جناب! لیکن خیال آیا کہ یہاں ہمارا کون؟ جواب ملا، اللہ! مطمئن ہو کر کہا بس پھر پرواہ نہیں ،