کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 30
اِنَّه كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا (پ16. مريم) کہ آپ صدیق نبی تھے۔
اور صديق نبی وه ہوتے ہیں جو خدا سے اپنے خصوصی تعلق اور الہامات کے بارے میں حد درجہ مطمئن، صاحبِ ایقان اور شاہدِ حق ہوتے ہیں ۔ ان کی زبان صرف شہادتِ حق کے لئے کھلتی ہے اور حق ہی ان کی زبان سے نکلتا ہے:
وَجَعَلْنَا لَھُمْ لِسَانٌ صِدْقٍ عَلِیًّا (مریم) کہ ہم نے ان کو سچ کہنے والی زبان بخشی۔
گو یہ مقام سب انبیاء کو حاصل ہوتا ہے، لیکن آپ کو مزید اختصاص حاصل تھا کیونکہ مظاہر پرست دنیا کے ماحول میں ارض و سماء کی بادشاہت اور ملکوت کا مشاہدہ آپ کو بالخصوص کرایا گیا تھا تا کہ ان کے تخمین و ظن کے مقابلے میں دولتِ یقین آپ کو مز حاصل ہو جائے۔
وَکَذٰلِکَ نُرِيْٓ اِبْرَاھِيْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِيَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ
بے داغ دل بھی آپ کو حاصل تھا:
اِذْ جَآءَ رَبَّه بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ (صٰفّٰت) کہ جب آپ قلبِ سلیم لے کر اپنے رب کے پاس آئے۔
قلبِ سلیم سے مراد وہ بے داغ دل ہے جو غیر اللہ کی پرچھائیوں کی وجہ سے داغ دار نہیں ہوتا۔ قرآن حکیم کی زبان میں اس کو حنیف بھی کہتے ہیں :
اِنَّ اِبْرَاھِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِلهِ حَنِيْفًا وَّلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (النحل۔ ع 16)
یقین کیجئے! حضرت ابراہیم خود ایک اُمّت تھے، قانت تھے، حنیف تھے اور مشرک نہیں تھے۔
اُمت تھے۔ جو خوبیاں علی الانفراد سب میں پائی جاتی ہیں ۔ ان کے وہ تنہا مالک تھے۔ اس لئے مرجعِ خلائق اور امام بنے۔ قانتؔ تھے۔ با ادب خدا کے حضور عبادات اور مناجات میں سدا محو رہنے کو قانت کہتے ہیں ۔ حضورِ قلب کا یہ وہ مقام ہے جہاں با ادب، با ملاحظہ، ہوشیار کی کیفیت اور سماں طاری رہتا ہے یوں جیسے ایک وفادار اور عاشقِ زار غلام اپنے آقا کے پُرجلال دربار میں حاضر کھڑا ہو۔
حنیفؔ تھے۔ حضورِ قلب کی اس دولت میں کسی اور دھیان اور دل چسپی کی آمیزش سے پاک اور صرف خدا کے لئے یکسو تھے اور اس سلسلہ میں اس قدر حساس اور غیور تھے کہ اگر اس مقام ’’توحید‘‘ کے منافی کہیں کوئی چیز آپ کو نظر آجاتی تو بیزار ہو جاتے۔
فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَه اَنَّه عُدُوٌّ تَبَرَّأَ مِنْهُ (پ۱۱۔ توبہ۔ ع ۱۴)