کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 29
نینو اور بابل کے باشندے بھی ہیں ار ایک مہاجر بھی۔ بت کدہ میں پل کر جواں بھی ہوئے۔ کعبہ کے معمار بھی بنے۔ ان تمام متنوع اور متضاد حیثیتوں میں انہوں نے جو ایک معیار اور اسوۂ حسنہ پیش کیا ہے، وہ جس قدر حسیں ہے اتنا ہی طویل بھی ہے جس کا یہاں استقصاء مشکل ہے تاہم بعض امور ایسے ہیں اگر ان کے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ’’براہیمی‘‘ سمجھنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔
مثلاً فرائض منصبی میں ذرہ بابر کوتاہی برداشت نہ کی، لیکن شدید اختلافات کے باوجود ایک فرزند ارجمند کی حیثیت میں باپ کے ’’معروف احترام اور آداب‘‘ کو بھی ملحوظ رکھا۔ اولاد عزیز از جان ہوتی ہے لیکن جب ’’اُس‘‘ کی راہ میں لٹانا پڑا تو تامل نہ کیا۔ گو ایک عظیم قوم کے مالک تھے۔ لیکن حق کو قوم کی جمہوریت کی نذر نہ کیا۔ ملک و وطن کے ہر باسی کو اپنے ملک سے بے پناہ محبت ہوتی ہے مگر ضمیر اور حق پر کبھی بھی اس کو بھاری نہیں ہونے دیا۔ اگر پوری قوم اور ملک نے راہ روکنے کی کوشش کی تو اس کی پرواہ نہ کی۔ دیس سے پردیس جا کر خدا کو نہ بھولے۔ نکلے بھی تو یوں کہ ؎
جبیں پہ گردرہِ عشق، لب پہ مہرِ سکوت!
دیارِ غیر میں پھرتا ہوں ، آشنا کے لئے!
کہتے ہیں ماحول اور خاندانی اثرات لے ڈوبتے ہیں ، یہ بات کافی حد تک صحیح بھی ہے۔ لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے جب اپنے ’ضمیر اور ایمان‘ سے محبت نہ رہے۔ اپنے نظریہ پر ترس نہ آئے اور کند قلب و نگاہ لے کر اُٹھے۔ ایک با ضمیر خدا آشنا اور عقابی نگاہ رکھنے والے با خدا انسان کے لئے خاندان تو کجا، آتشکدہ جیسے آتشیں عوامل بھی ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتے اور نہ ہوئے۔ بت کدہ میں پل کر ’’کعبہ‘‘ ہی تعمیر کیا ملک اور قوم کو بھی اس پر نثار کیا۔
طبعی اور فطری حیثیت میں آپ ’’اوّاہ‘‘ ’’منیب‘‘ اور ’’حلیم‘‘ تھے۔ اوّاہ سے مراد وہ ہستی ہے جو حُبِِّ حق کے ہاتھوں آہ و فغاں جس کا شیوہ ہوتا ہے۔ حلیمؔ اس بردبار اور متوازن انسان کا نام ہے جو ناسازگار حالات کے باوجود حوصلہ نہیں ہارتا اور حواس قائم رکھتا ہے۔ منیبؔ اس کو کہتے ہیں جو اپنی مشکلات اور مسائلِ حیات کے سلسلہ میں دستگیری اور رہنمائی کے لئے سدا اپنے رب کی طرف متوجہ رہتا ہے۔
اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ ۔ اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ۔
آپ کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے: