کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 28
مِنْ دُوْنِ اللهِ لَا يَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْهُ وَاشْكُرُوْا لَهط (پ 20، عنكبوت۔ ع 6)
تم تو خدا كے سوا بس بتوں كی پرستش كرتے ہو اور جھوٹی جھوٹی باتیں (دل سے) بناتے ہو خدا کے سوا جن کی پرستش کرتے ہو تمہیں روزی دینے کا تو (ذرا سا بھی) اختیار نہیں رکھتے، اس لئے روزی بھی خدا سے ہی مانگو، اسی کی عبادت کرو اور اس کا ہی شکر بجا لاؤ۔
مقصد برآری اور دکان چمکانے کے لئے غلط رُخ قول و فعل کے استعمال کرنے کا نام ’’افک‘‘ ہے۔ اگر ہم اسے ’’جاہلی سیاست‘‘ سے تعبیر کریں تو بے جا نہ ہو گا۔ گویا کہ کل جسے ’’افک‘‘ کہا جاتا تھا اسے آج ’’سیاستِ سوء‘‘ سے تعیر کیا جا سکتا ہے۔ کل جو شے جاہلیت تھی آج وہی روشن خیالی اور سیاسی چابک ددستی تصور کی جاتی ہے۔
داعیانِ حق کی راہ مارنا اور دعوتِ حق پر بری طرح بگڑنا بلکہ ان کے گلے پڑنا چونکہ آزر کی آزریت کا خاص شاہکار تھا لہٰذا بگڑ کر بولا:
اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِھَتِيْ يٰآ اِبْرَاھِيْمُ ج لَئِنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ وَاھْجُرْنِيْ مَلِيًّا
کہ اے ابراہیم! کیا تو میرے آقاؤں اور معبودوں سے پھر گیا ہے؟ اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا۔ مجھ سے دور ہو جاؤ۔
الغرض اپنے پرائیویٹ مصالح اور مقاصد کی خاطر چند شاطر وار جاہ پرست افراد کو پوری قوم اور ملک پر مسلط رکھنے کی کوشش کرتے رہنا اپنی بہترین صلاحیتیوں سے عوام کی گمراہی کے کام لینا، راہِ حق مارنا، خود تراشیدہ اصنام اور منتخب کردہ طاغوت کی غلامی کو ’’معنوی اور معنے خیز ترقی‘‘ کا زینہ تصور کرنا ’’داعیانِ حق‘‘ سے بگڑنا اور ’’دعوتِ حق‘‘ سے چڑنا، کفر و طاغوت کی خدمت کرنا، خدا اور رسول کے سامنے اڑ جانا۔ بس ’’آزری‘‘ کا یہ طول و عرض تھا۔ اب آپ اس کے بالمقابل، براہیمی اور اسمٰعیلی طرزِ زندگی ملاحظہ فرمائیں اور خود ہی موازنہ کریں کہ ہم اپنا وزن کس پلڑے میں ڈال رہے ہیں ۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات کے اندر کئی ایک پہلو قابل نظارہ ہیں ۔ آپ پیغمبِر خدا بھی ہیں اور آزر کے صاحبزادے بھی، حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے باپ بھی ہیں اور اپنی قوم کے ایک عظیم فرد بھی۔