کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 27
کی وجہ سے انسان خدا سے بیگانہ اور غافل ہو جائے۔ (مفردات)
دراصل یہ کیفیت اس وقت ہی پیدا ہوتی ہے جب کوئی شخص کسی شے کے سلسلہ میں ایسی ہی توقعات اور حسنِ ظن میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اسباب و علل سے ماوراء کوئی شےاس کو کچھ فائدہ یا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ گویا کہ آزر نے ایک ایسی طرح ڈال دی تھی کہ پوری قوم خدا کے ماسوا اور بہت سی چیزوں کو نافع اور ضارّ سمجھ کر ان کے گرد جمع ہو گئی تھی۔ خواہ وہ نمرودی کروفر ہو یا مذہبی پیشوأوں کے جال ہوں ۔ روحانی مہنتوں کے مکر و فریب ہوں یا سیاسی ٹاؤٹوں کی جعل سازیاں ہوں ، بہرحال انسان ان کے سلسلہ میں کسی خوش فہمی میں مبتلا ہو کر ہی ان کے بھّرے میں آسکتا ہے۔ آزر نے یہ سارے جال بچھا رکھے تھے جس پر حضرتِ خلیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو ملامت کی تھی اور خدا سے یہ دعا کی تھی:
’’وَاجْنُبْنِیْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ‘‘
(الٰہی!) مجھے اور میری نسل کو بتوں کی پرستش سے دور ہی رکھیو۔
ظاہر ہے کہ اس سے مراد صرف وہ ظاہری اصنام اور بت نہیں ہو سکتے جن کا رواج عام تھا بلکہ ان کے ساتھ یہ سب دوسری جعل سازیوں کے فتنے بھی تھے۔
سورہ انبیاء میں فرمایا:
اِذْ قَالَ اِبْرَاھِيْمُ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِه مَا ھٰذِهِ التَّمَاثِيْلُ الَّتِيْ اَنْتُمْ لَھَا عٰكِفُوْنَ
وہ وقت یاد کرو جب حضرت ابراہیم (علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا، یہ کیا تصویریں اور مورتیاں ہیں جن پر تم جمے بیٹھے ہو۔
تمثال دراصل اس چیز کا نام ہے جو دوسری شے سے ملتی جلتی ہونے کی وجہ سے اس کی صفات اور خصوصیات کی مظہر بھی ہو۔ آزر اور اس کی قوم نے اس قسم کے گمراہ کن مظاہر گھڑ لیے تھے جن کے سلسلہ میں یہ حسنِ ظن قائم کر لیا گیا تھا کہ یہ خدائی صفات اور اختیارات کے حامل اور مظہر ہیں ۔ اس لئے ان کا یہ نعرہ عام ہو گیا تھا کہ:
اللہ کے پلے میں دھرا وحدت کے سوا کیا ہے۔
لینا ہے جو ہم نے، وہ لے لیں گے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے (استغفر اللہ)
چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان پر یہ الزام عائد کیا:
اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْكًاط اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ