کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 25
پیدائش بت کدہ میں ، فطرت بت شکن اس عہد کی تجدید کی اشدّ ضرورت ہے مولانا عزیز زبیدیؔ آزر، براہیم اور اسماعیل، اندازِ زیست سب کے جدا جدا، بات بُت فروش، بیٹا بُت شکن اور صاحبزادہ سر فروش۔ وہ مظاہرہ پرست، یہ خدا پرست اور تیسرا تسلیم و رضا کا پیکر۔ اپنا اپنا نصیب اور اپنی اپنی فطرت! ایک ہی درخت، کچھ کانٹے، کچھ پھول اور کچھ شیریں پھل۔ تہیدستانِ قسمت راچہ سود از رہبر کامل! کہ خضر از آبِ حیواں تشنہ می آرد سکندررا کفر اور شرک کی ایک خاص فطرت ہے جس کے سمجھنے کے لئے ’’آزر‘‘ کی زندگی کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ اسلام اور توحید کا اپنا ایک مزاج اور رنگ و بُو ہے، اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا اسوۂ حسنہ اسلام اور توحید کی سچی تفسیر، اصلی تعبیر اور بے داغ اسلوب ہے تو اس میں قطعاً کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔ نماردۂ وقت کے اپنے مخصوص اغراض، آمرانہ مقاصد اور ناپاک پروگرام ہوتے ہیں جن کی تکمیل کے لئے کچھ افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو بدقسمتی سے عموماً ان کو مل ہی جاتے ہیں ۔ آزر، نماردۂ عراق کے اغراض باطلہ کے لئے ایک معتمد ستون تھا، خدا کی خدائی سے تو اس کو کوئی دلچسپی نہ تھی، ہاں نمرود کی خدائی کے سلسلہ میں خاصا مخلص رہا اور اس کے لئے خاصی سنجیدہ کوششیں بھی کیں ۔ کسی قوم کی بد نصیبی کے لئے اتنی ہی بات کافی ہوتی ہے کہ اس کے سر پر آوارہ لوگوں کو ملک اور قوم کی بہ نسبت جبر و استبداد کی دل جوئی زیادہ مطلوب ہو اور محض اس لئے کہ ان کے شخصی مصالح پورے ہوتے ہیں ، وہ پوری