کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 24
لئے یہ امر بے حد ضروری ہے کہ امراء کی دولت غرباء کو منتقل ہوتی رہے۔ اگر یہ اصول ٹھیک ہے تو پھر ملک میں لاکھوں افراد کا ذریعہ معاش یہی ہے کہ وہ ریوڑ پالیں اور عید الاضحیٰ کے موقعہ پر ان کو مہنگے داموں فروخت کریں ۔ پھر لاکھوں قصاب ہیں جو ان ایام میں ذبح کرنے کی معقول اجرت پاتے ہیں ۔ پھر لاکھوں غریب خاندان ہیں جو کم از کم تین دن عمدہ غذا سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور چرمہائے قربانی سے بیسیوں ضرورتیں پوری کرتے ہیں پھر ہزاروں یتیم خانے اور رفاہی ادارے ہیں جن کا سالانہ بجٹ قربانی کی کھالوں سے مستحکم ہوتا ہے۔ پھر ہزاروں خاندان ایسے ہیں جن کا ذریعہ معاش چمڑے کی رنگائی ہے۔ ذرا ان سے پوچھئے کہ ان کی معاش میں قربانی کی کتنی اہمیت ہے اور ان کی اقتصادی پوزیشن کے استحکام میں قربانی کو کتنا دخل ہے۔ پھر کتنے افراد وہ ہیں جو ہڈی وغیرہ کا کاروبار کرتے ہیں ۔ پھر ذرا اپنی حکومت کے شعبۂ تجارت سے معلوم فرمائیے کہ قربانی کی کھالوں ، ہڈیوں اور اون وغیرہ سے کس قدر زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ پھر اندرونِ ملک کتنی مصنوعات ہیں جن کا انحصار چمڑے، ہڈی، سینگ اور انتڑیوں پر ہے۔ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس نے ان تمام فوائد کو لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ کے جملہ میں سمیٹ لیا ہے۔ قلّت کا بہانہ: اِس مقام پر جانوروں کی قلت کا بہانہ بھی غیر مناسب ہے۔ حکومت اگر مویشیوں کی قلت دور کرنا چاہتی ہے تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ افزائشِ نسل کی کوشش کی جائے۔ مویشی فارم کھولے جائیں ۔ مویشی پالنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ چراگاہیں عام ہوں اور سبزیوں کو ترقی دے کر ذبیحہ پر مناسب پابندی عائد کی جائے۔ پھر بھی قلت دور نہ ہو تو بقولِ محترم مودودی صاحب: ’’ہفتہ میں پورے سات دن گوشت کا ناغہ ہونے لگے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو مستقل طور پر ختم کر دیا جائے۔‘‘ کیونکہ قربانی قرآنی الفاظ میں شعائر اللہ میں داخل ہے۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ شعائر اللہ کے احترام میں ہر ممکن قربانی کریں ۔ یہ بھی یاد رہے ایامِ قربانی میں ذبح ہونے والے جانوروں کے مبالغہ آمیز اعداد و شمار دیئے ہوئے یہ بات بھی یاد رہنی چاہئے کہ قربانی کے تین چار دن عام مذبح خانے یکسر بند رہتے ہیں اور عید سے کئی دن قبل اور بعد بھی ذبیحہ کی رفتار خاصی کم رہتی ہے کیا اچھا ہو کہ اعداد و شمار ترتیب دیتے ہوئے اس بحث کو میزان سے منہا کر لیا جائے۔ امید ہے کہ جمع و تفریق کا یہ عمل کسی نہ کسی درجہ میں ان خطرات کے لئے حوصلہ افزا ثابت ہو گا۔