کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 22
بہرحال ہم گذشتہ پیرا گراف میں ان کی بنیاد یعنی بین الاقوامی ضیافت کے نظریہ کو ان کے مسلمات کی روشنی میں غلط ثابت کر آئے ہیں ۔ لہٰذا اس فقرہ پر مزید بحث کی ضرورت نہیں اور اگر اس سے ان کی مراد صرف یہ ہے کہ آج ہمارے اعمال میں اخلاص کا جوہر کم ہو گیا ہے تو ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں لیکن عدمِ اخلاص یا قلتِ اخلاص کے سبب احکامِ قطعیہ اور اعمال ثابتہ کا انکارِ عقلِ سلیم اور نقل صحیح کے خلاف ہے۔ پرویز کا اپنا اعتراف: مندرجہ بالا تصریحات کے برعکس پرویزؔ صاحب نے فقرہ نمبر ۴ میں جو کہا ہے اس کا بدیہی نتیجہ یہ ہے کہ غیر حاجی بھی قربانی کر سکتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب حج کے لئے مکہ نہ جا سکے تو بھی آپ نے قربانی بھیجی ہے۔ پرویز صاحبؔ کے اس اعتراف کے بعد ہمارا اور ان کا اختلاف کافی گھٹ گیا ہے۔ پہلے تو وہ قربانی کی اجازت صرف حجاج کو دیتے تھے لیکن اس بیان میں انہوں نے قربانی کو حجاج کی بجائے مکہ مکرمہ سے مخصوص کر دیا ہے۔ ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر ہم آج رسول کے اتباع میں قربانی کے جانور کعبۃ اللہ بھیج دیں تو آپ ناراض تو نہ ہوں گے؟ اور اگر آپ خود بھی ایسا کر سکیں تو ہم آپ کو منکرِ قربانی کہنا چھوڑ دیں گے۔ خدا کرے کہ آپ اس بیان پر قائم رہیں ۔ اب ہمارا اور ان کا جھگڑا صرف اتنا ہے کہ جو مسلمان کسی شرعی عذر کے سبب حج کے لئے مکہ مکرمہ نہ جا سکے وہ اپنے وطن میں قربانی کر سکتا ہے یا نہیں ؟ اس سلسلہ میں ہم ان سے وضاحت چاہتے ہیں کہ ان کے اس فقرہ میں تاریخ سے کیا مراد ہے؟ اگر کتب حدیث اس میں شامل ہیں تو پھر ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ منورہ میں قربانی کرنا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کے لئے حکم دینا پوری تفصیل سے موجود ہے۔ بلکہ قربانی کے ایام، قربانی کے جانور، قربانی کا ثواب، قربانی کے گوشت کے مصارف اور دوسری ہدایات کا ایک دفتر موجود ہے اور ان تمام امور کا تذکرہ بھی ہے جن کا مذاق آپ نے فقرہ نمبر 6 میں اُڑایا ہے۔ پھر اس تاریخ کے ایک حصہ سے استدلال اور دوسرے حصہ کا بلا وجہ استرداد ہماری سمجھ سے بالا ہے۔ اور اگر ان کے فقرہ میں تاریخ سے مراد کچھ اور ہے تو اس کی تعیین فرمائیں ۔ ہم ان شاء اللہ وہیں سے ثابت کر دیں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے اپنے وطن میں عید الاضحیٰ پر قربانی دی ہے۔ البتہ اس صورت میں ہم پرویزؔ صاحب سے یہ سوال ضرور کریں گے کہ اگر حدیث قالِ اعتبار نہیں ہے تو تاریخ میں کیا اضافہ ہے کہ اسے مستند مانا جائے؟ ہاں یہ بھی بتائیے کہ تاریخ نبوی کے