کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 21
کوئی عار نہ تھی۔ (نعوذ باللہ من حذہ الھفوات)
بہرحال پرویزؔ احب نے اتنا تو مان لیا کہ دین میں یہ ترمیم و تحریف دورِ حریّت (خلافت راشدہ) کے بعد دورِ ملوکیت (عہد بنی امیہ و بنی عباس) میں شروع ہوئی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ دورِ ملوکیت سے پہلے دین اپنی اصلی روح کے ساتھ موجود اور پیشوائیت کی تمام آلائش سے پاک اور صاف تھا۔
ایک مطالبہ:
ہم ان کے ان مسلمات کی روشنی میں ان سے سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ اس امر کا کوئی ثبوت پیش کر سکتے ہیں کہ خلفائے راشدین کے دور میں قربانی بین الاقوامی ضیافت کے لئے استعمال ہوتی تھی اور تاریخ سے اس کی شہادت دے سکتے ہیں کہ اسلام کے دورِ حریّت میں اس قسم کی ضیافت کا تصور بھی موجود تھا؟ اور قیام منیٰ کے ایام میں بصرہ، کوفہ اور شام وغیرہ کے حجاج نے دوسرے ممالک کے حجاج اور مقامی لوگوں کی اِس اونچی سطح پر دعوت کی ہو؟ ہاں یہ بھی فرمائیے کہ قرآن مجید میں اس بین الاقوامی ضیافت بلکہ ’’منیٰ‘‘ میں قیام کا ذِکر کہاں ہے؟ یا لگے ہاتھ یہ کہہ دیجئے کہ قرآن مجید بھی تحریف و ترمیم سے محفوظ نہیں رہا اور خدا تعالیٰ کا وعدہ حفاظت تشنۂ وفا رہ گیا اور اس کی مخلوق اس کے ارادہ میں حائل ہو گئی۔
نا معلوم ان لوگوں کو بے ثبوت اور غیر ذمہ دارانہ باتیں کہتے ہوئے حیا کیوں نہیں آتی؟ ہمیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ قدرت ان سے انکارِ حدیث کے جرم کا انتقام لے رہی ہے اور اس گناہ کی پاداش میں ان کا تعلق کتاب اللہ سے منقطع ہو رہا ہے۔
موجودہ دور میں حجاج کی قربانی:
پرویزؔ صاحب نے فقرہ نمبر ۲ میں جس طرح عام دنیائے اسلام کی قربانیوں کو رسم کہا۔ اسی طرح موجودہ دور میں مکہ مکرمہ میں حجاج کی قربانی کو بھی ’’محض ایک رسم کی تکمیل‘‘ قرار دیا ہے۔ اس سے ان کا منشاء غالباً یہ ہے کہ مراسمِ حج میں قربانی مقصود بالذات نہ تھی اور نہ ہی براہِ راست تقربِ الٰہی کا وسیلہ، بلکہ اس سے اصل غرض بین الاقوامی ہی تھی چونکہ آج کل اس ضیافت کا اہتمام نہیں ہو رہا۔ اس لئے مکہ مکرمہ میں حجاج کی قربانی بھی غیر ضروری اور محض ایک رسم کی تکمیل ہے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ کل کو یہی صاحب یہ کہیں گے کہ حج کا اصل مقصد نمائندگانِ ملت کا بین الاقوامی اجتماع اور پوری امتِ مسلمہ کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنا تھا جو اس دور میں نہیں ہو رہا۔ لہٰذا آج کا حج بے مقصد اور محض ایک رسم کی تکمیل ہے۔