کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 20
فطرتِ صالحہ کی محکومی کا دوسرا نام ہے لیکن جب اس دورِ حریّت کے بعد ملوکیت نے سر نکالا تو اس کے ساتھ ہی پیشوائیت کی وہ روح بھی ابھری جسے قرآن نے مسل کر رکھ دیا تھا۔ اسلام اس طرح جگمگا کر دنیا کے سامنے آیا تھا کہ اسے یک لخت نگاہوں سے اوجھل کر دینا ممکن نہ تھا۔ ملوکیت کی ابلیسانہ سیہ کاریوں نے اس کے لئے تلبیس کا دامِ ہمرنگِ زمیں وضع کیا۔ اسلام کے خارجی مظاہر کو بالکل اسی طرح رہنے دیا۔ لیکن ان میں سے روح پوری طرح کھینچ لی۔ اسی غرض کے لئے اسی پیشوائیت سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔‘‘ (مجموعہ مضامین ص 66، 67) پرویزی تشخیص: اس کے بعد پرویزؔ صاحب فرماتے ہیں کہ: ’’پیشوائیت نے ملوکیت کے استحکام کے لئے دین و دنیا کی تفریق کا مسئلہ ایجاد کیا۔ پھر یہ اصول وضع کیا کہ مذہب عقل سے بے نیاز ہے۔ پھر ان غلط نظریات کو مدلل کرنے کے لئے کہا کہ قرآن کا صحیح مفہوم وہ ہے جو رسول اللہ متعین فرمائیں ۔ پھر اس مقصد کے لئے احادیث وضع کی گئیں ۔ پھر چونکہ من گھڑت حدیثیں قرآن کے خلاف تھیں اس لئے بے شمار آیات کو منسوخ قرار دیا گیا اور یہ عقیدہ پیدا کر لیا گیا کہ حدیث قرآن کی ناسخ ہے۔ پھر قرآن و حدیث دونوں کو فقہ کے تابع کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد یہ حالت ہو گئی کہ ان رسوم و عقائد کو حق و صداقت کا مسلک ثابت کرنے کے لئے کسی کاوش و کاہش کی ضرورت ہی باقی نہ رہی۔ اسی طرح یہ تمام چیزیں ہی باقی نہ رہی کہ یہ چیزیں ہزار برس سے اُمّت میں متواتر چلی آرہی ہیں کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ساری کی ساری امت غلط راہوں پر چلی آرہی ہو۔‘‘ (ص 70) لازمی نتائج: پرویزؔ صاحب کے ان خیالات کو صحیح باور کر لینے سے ہمیں آج اسلامی تاریخ، حدیث کے دفاتر، تفاسیر کے خزائن، فقہ کے ذخائر اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تمام سرمایہ سے فی الفور دست بردار ہونا پڑے گا اور تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارے تمام اسلاف جھوٹے، اپنے پیغمبر کے نام جھوٹ گھڑنے والے اور شاہی درباروں کے حاشیہ نشیں تھے اور انہیں بادشاہوں کو خوش کرنے کے لئے خدا اور اس کے رسول پر جھوٹ بولنے میں