کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 19
’’قربانی کا اصل مقصد یہ ہے کہ میدانِ عرفات میں طے شدہ لائحہ عمل کی تفصیلات مرتب کرنے کے لئے جب حجاج کا بین الاقوامی اجتماع دو تین دن تک منیٰ میں رہے گا تو ان مذاکرات کے ساتھ باہمی ضیافتیں بھی ہوں گی۔ آج صبح پاکستان والوں کے ہاں ، شام کو اہلِ افغانستان کے ہاں ، اگلی صبح اہلِ شام کی طرف۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ قرآنِ مجید نے تو قیامِ عرفات وغیرہ کا مقصد ذکرِ الٰہی، استغفار، دعا و مناجات اور شعائر اللہ کی تعظیم بیان فرمایا ہے لیکن مسٹر پرویزؔ ہیں کہ میدانِ عرفات میں اجتماع کے اصل پروگرام کی نشاندہی ان الفاظ میں فرماتے ہیں کہ ’’وہاں یہ تمام نمائندگانِ ملّت ایک لائحہ عمل مرتب کریں گے پھر اس کی تفصیلات طے کرنے کے لئے ان تمام نمائندگان کو دو تین دن کے لئے عرفات سے منیٰ میں لاتے ہیں ۔ خدا جانے یہ تفصیلات عرفات میں طے کیوں نہیں ہوتیں ؟ پھر یہ صاحب حجاج کو نمائندگانِ ملت قرار دیتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ حضرات ملّت کے نمائندہ کس حیثیت سے ہوتے ہیں اور انہیں سندِ نمائندگی کون دیتا ہے؟ ہم کم علم تو اتنا ہی جانتے ہیں کہ قرآنی الفاظ میں حج مالی اور بدنی لحاظ سے ہر صاحبِ استطاعت پر فرض ہے۔ کیا ملّت کی نمائندگی کے لئے یہی اوصاف کافی ہیں ؟ ہم اس نظامِ ربوبیت اور اسلامی معاشرہ کے قیام کے داعی سے یہ بھی پوچھنا چاہتے ہیں کہ ملّت کے لئے لائحہ عمل اور اس کی تفصیلات طے کرنا قرآنی الفاظ میں اولی الامر اور صاحبانِ استنباط حضرات کا کام ہے یا عرفات اور منیٰ جیسے میدانوں میں لاکھوں افراد کا؟ اسی طرح ہماری دانست میں قربانی کے گوشت کا مصرف خود قرآن مجید نے ’’فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوْا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ‘‘ کے الفاظ میں بتا دیا ہے۔ ہم مسٹر پرویزؔ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بین الاقوامی ضیافت والی آیت کی نشان دہی فرمائیں ۔ ان ضمنی گزارشات کے بعد ہم بین الاقوامی ضیافت کے پرویزی تور پر تنقید کرتے ہیں ۔ پرویزؔ صاحب نے اپنے ایک مضمون میں اس اعتراض (کہ جب قربانی کے لئے کوئی حکم اور کوئی سند موجود نہیں تو ہزار برس سے یہ کس طرح متواتر چلی آرہی ہے اور اس کے خلاف کسی نے آواز کیوں نہ اُٹھائی) کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : دَورِ حریّت کے بعد ملوکیّت: ’’اسلام دنیا سے ملوکیت اور پیشوائیت (ملائیت) مٹانے کے لئے آیا تھا وہ ابنِ آدم کو ذہنی اور روحانی دونوں حیثیتوں سے صرف خدا کا مملوک بنانا چاہتا تھا جو در حقیقت اس کی اپنی