کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 18
ذبحِ عظیم سے مراد؟ پھر آپ نے لکھا ہے کہ: ’’حضرت اسماعیل کی جگہ مینڈھا کرنے کا واقعہ بھی قرآن میں نہیں توراۃ میں ہے۔‘‘ براہِ مہربانی اتنا تو بتا دیجئے کہ وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْم کا مطلب کیا ہے؟ لیکن اس کا ترجمہ اور مفہوم بیان کرتے ہوئے ذرا قواعدِ عرب کا احترام رہے۔ پھر آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ: ’’قرآن نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اس واقعہ عظیمہ کی یاد میں جانور ذبح کیا کرو۔‘‘ پرویز صاحب! ہم آپ کی خدمت میں خود آپ کی کتاب ’’جوئے نور‘‘ سے ان آیات کا ترجمہ پیش کرنا کافی سمجھتے ہیں : ’’اور دیکھو ہم نے ایک بہت بڑی قرانی کے عوض اسماعیل کو ذبح ہونے سے بچا لیا اور ہم نے بعد کو آنے والی نسلوں کے لئے اس واقعہ کی یاد کو باقی رکھا۔‘‘ (ص 156) جنابِ من! یہی وہ نکتہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی حقیقت دریافت کرنے پر بیان فرمایا۔ پوچھنے والوں نے پوچھا ما ھذہ الا ضاحی یا رسول اللہ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: سنة ابیکم ابراھیم۔ یہ تمہارے جدِّ اعلیٰ حضرات ابراہیم علیہ السلام کی سنت و یادگار ہے۔ ہم حیران ہیں کہ جو شخص قرآن مجید کے ایک ہی مقام کے ترجمہ میں اس قدر غلطیاں اور اس کی تشریح میں اس قدر ہیرا پھیری کرتا ہے اس کے ’’عقیدت مند‘‘ آخر کس بنا پر اسے دورِ حاضر کا عظیم انسان اور قرآنی علوم و معارف کا بہترین ترجمان کہتے ہیں ؟ ائمۂ تفسیر قرآن مجید کا مفہوم متعین کرنے میں قرآنی تصریحات، فرامینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور لغاتِ عرب سے استمداد کرتے ہیں ۔ لیکن پرویزؔ صاحب مفسرین سلف سے ناراض ہیں کہ انہوں نے کتابِ الٰہی کو چیستان بنا دیا ہے لیکن خدا جانے ان کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ جملہ قرآنی علوم اور قواعدِ عرب سے بے نیاز ’’معارف‘‘ کے نام پر جو چاہیں کہتے چلے جائیں اور ان کو توجہ دلانے والا گردن زونی قرار پائے۔ بین الاقوامی ضیافت: پرویزؔ صاحب نے فقرہ نمبر ۳ میں حجاج کی قربانی کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ: