کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 16
رکھ دیا جائے تاکہ اسے ردّ و بدل اور ترمیم و تحریف کا گلہ نہ رہے۔
تنقیدی گزارشات:
اب ذرا پرویزؔ صاحب کے ارشادات پر تنقیدی نگاہ ڈالیے اور انصاف کیجئے کہ بات کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے؟ انہوں نے فقرہ نمبر 1 میں حضرت ابراہیم کی طرف سے حضرت اسماعیل کی قربانی پر آمادگی کو ’’واقعہ عظیمہ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ حالانکہ ان کی رائے میں خداوندِ قدوس نے بیٹے کو ذبح کرنے کا کوئی حکم دیا ہی نہ تھا۔ خواب میں جو کچھ کہا گیا تھا جناب ابراہیم اس کا مطلب سمجھنے سے قاصر رہے اور مجاز کو حقیقت سمجھ بیٹھے۔ چنانچہ پرویزؔ صاحب اپنی ایک دوسری کتاب ’’جوئے نور‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’آپ (حضرت ابراہیم) خواب کے ایک اشارے سے یہ سمجھے کہ حکم ملا ہے کہ بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیا جائے۔ ہر چند یہ حکم نہ تھا۔ محض خواب میں ایسا دیکھا تھا لیکن انہوں نے اس کو کچھ ’’اوپر کا اشارہ‘‘ سمجھ لیا اور ایسی تحیر انگیز اور ہوش ربا قربانی کے لئے تیار ہو گئے۔ بیٹے سے پوچھا، کہو تمہارا کیا خیال ہے؟ اب بیٹے کا جواب بھی سن لیجئے۔ عرض کیا یٰآاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ ابا جان! جس بات کا اشارہ آپ کو ملا ہے اسے بلا تامّل کر گزریے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے۔‘‘ (ص 150، 155)
’’حضرت ابراہیم کو اس قربانی کا حکم نہ دیا گیا تھا انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں ۔ اپنی محبت اور شیفتگی کے جوش میں خواب کو حقیقت سمجھ بیٹھے اور بیٹے کی قربانی کے لئے آمادہ ہو گئے لیکن جس وقت انہوں نے چھری ہاتھ میں لے لی تو اس وقت آپ کو بتایا گیا کہ خواب کے مجاز کی حقیقت کیا تھی۔‘‘ (ص 155، 156)
غور فرمائیے!
غور فرمائیے کہ جب ذبح کا حکم ہی نہ ہوا تھا بلکہ خلیل اللہ نے منشاء الٰہی سمجھنے میں غلطی کی تھی تو اس پر تحسین و مرحبا کا کیا مطلب؟ یہاں تو یہ چاہئے تھا کہ فوری طور پر حضرت ابراہیم کی اجتہادی غلطی پر توجہ دلائی جاتی اور انہیں اپنے الہام کے اصل منشاء پر اطلاع دی جاتی۔ مزید غور فرمائیے کہ حضرت اسماعیل تو یٰآ اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ کے الفاظ میں والد محترم کے خواب میں دیکھے نظارے کو امرِ الٰہی سے تعبیر فرما رہے ہیں لیکن پرویزؔ صاحب قرآنی الفاظ کے برعکس کس دیدہ دلیری سے کہہ رہے ہیں کہ: