کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 15
4. ’’تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خود رسول اللہ نے بھی مدینہ میں قربانی نہیں دی۔ حج 9 ھ میں فرض ہوا۔ حضور اس سال خود تشریف نہیں لے گئے لیکن اپنی طرف سے کچھ جانور امیرِ کارواں حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ کر دیئے کہ وہاں مصرف میں لائے جائیں ۔ اگلے سال خود حضور حج کے لئے تشریف لے گئے اور وہیں جانور ذبح کئے لہٰذا ہر جگہ قربانی دینا نہ حکمِ خداوندی ہے نہ سنتِ ابراہیمی اور سنتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ (ص 65)
5. ’’حضرت ابراہیم کے متعلق قرآن میں ہے کہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں ۔ آپ نے سمجھا کہ یہ اشارہ غیبی ہے اس لئے اس کی تعمیل ضروری ہے۔ بیٹے سے ذکر کیا تو اس نے بھی کہا کہ اگر یہ حکم ہے تو اس کی تعمیل میں قطعاً تامل نہ کیجئے۔ میں ذبح ہونے کو تیار ہوں ۔ آپ نے بیٹے کو لٹا دیا۔ اس کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ نے پکارا کہ اے ابراہیم! تم نے خواب کو حکم خداوندی پر محمول کر کے اس کی پوری تعمیل کر دی۔ اس لئے ظاہر ہے، اگر تمہیں بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے بھی حکم دیا گیا تو تم اسے بلا تامل پورا کرو گے۔ یقیناً باپ اور بیٹا دونں اطاعت و تسلیم کے بلند ترین مقام پر فائز ہو۔ اس بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی تولیت کے لئے منتخب کر لیا۔ قرآن میں بس اتنا ہی واقعہ ہے۔ تورات میں البتہ یہ بھی ہے کہ جبریل نے جنت سے ایک مینڈھا لا کر بیٹے کی جگہ لٹا دیا اور چھری بیٹے کی جگہ مینڈھے پر چل گئی۔ لیکن یہ تو اسرائیلی انسانوں میں سے ایک فسانہ ہے۔ قرآن اس کی تائید نہیں کرتا۔‘‘ (ص 65، 64)
6. مذہبی رسومات کی ان دیمک خوردہ لکڑیوں کو قائم رکھنے کے لئے طرح طرح کے سہارے دیئے جاتے ہیں ۔ کہیں قربانی کو سنتِ ابراہیمی قرار دیا جاتا ہے کہیں اسے تقرب الٰہی کا ذریعہ بتایا جاتا ہے کہیں دوزخ سے محفوظ گزر جانے کی سواری بنا کر دکھایا جاتا ہے۔‘‘ (ص 64)
معذرت:
ہم قارئین سے معذرت خواہ ہیں کہ تقاضائے اختصار کے باوجود ہم نے پرویزؔ صاحب کے اقتباسات نقل کرنے میں تفصیل سے کام لیا۔ ہمارے خیال میں یہ تفصیل ناگزیر تھی۔ اس کے بغیر بات کو آگے چلانا مناسب نہیں تھا ویسے بھی تنقید و تبصرہ کے لئے ضروری ہے کہ فریقِ ثانی کے خیالات کے اظہار میں بخل و اختصار سے کام نہ لیا جائے بلکہ حریف کے نظریات کو بسط اور وضاحت کے ساتھ مخاطب کے سامنے