کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 14
کونسا گوشہ اور کونسا شعبہ ایسا ہے جس میں تحریف نہیں ہو چکی۔‘‘ [1] بہرحال ہم آج کی فرصت میں اس گروہ اور اس نہج پر سوچنے والے حضرات کے ان خیالات کا تجزیہ اور وساوس کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں جو قربانی کے مسئلہ پر ان حضرات کی طرف سے شائع ہو رہے ہیں۔ چند اقتباسات: اس سے قبل کہ ہم قربانی کی شرعی حیثیت واضح کریں اور ان حضرات کے موقف کو زیر بحث لائیں ، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پرویز صاحب کے خیالات کو ان کے اصل الفاظ میں پیش کر دیں : 1. ’’حضرت خلیل اکبر اور حضرت اسماعیل کے تذکارِ جلیلہ کے ضمن میں قرآن نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اس واقعہ عظیمہ کی یاد میں جانوروں کو ذبح کیا کرو۔ حتیٰ کہ حضرت اسماعیل کی جگہ مینڈھا ذبح کرنے کا واقعہ بھی قرآن میں نہیں تورات میں ہے۔‘‘ (قرآنی فیصلے ص 54) 2. ’’ساری دنیا میں اپنے طور پر قربانیاں ایک رسم ہیں اسی طرح حاجیوں کی وہ قربانیاں جو وہ آج کل کرتے ہیں ۔ محض ایک رسم کی تکمیل رہ گئی ہے۔‘‘ (ایضاً ص 56) 3. ’’قرآن کریم میں جانور ذبح کرنے کا ذِکر (نہیں صاحب حکم؟) حج کے ضمن میں آیا ہے۔ عرفات کے میدان میں جب یہ تمام نمایندگانِ ملّت ایک لائحہ عمل طے کر لیں گے تو اس کے بعد منیٰ کے مقام پر دو تین دن تک ان کا اجتماع رہے گا۔ جہاں یہ باہمی بحث و تمحیص سے اس پروگرام کی تفصیلات طے کریں گے۔ ان مذاکرات کے ساتھ باہمی ضیافتیں بھی ہوں گی، آج صبح پاکستان والوں کے ہاں ! شام کو اہل افغانستان کے ہاں ! اگلی صبح اہل شام کی طرف سے (وقس علٰی ذٰلک) ان دعوتوں میں مقامی لوگ بھی شامل کر لیے جائیں گے، امیر بھی اور غریب بھی! اس مقصد کے لئے جو جانور ذبح کیے جائیں گے، قربانی کے جانور کہلائیں گے۔ چونکہ اس اجتماع کا مقصد نہایت بلند اور خالصۃً لوجہ اللہ ہے اس لئے پروگرام کی ہر کڑی خدا کے قریب تر لانے کا ذریعہ ہے۔ یہ ہے قربانی کی اصل! اس لئے قرآن نے صراحت فرمائی ہے کہ قربانی کے جانوروں کی منزل مقصود بیت اللہ ہے، ثُمَّ مَحِلُّھَآ اِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ(ص 55)
[1] ملاحظہ ہو قرآنی فیصلے مجموعہ مضامین پرویز ص 65-66