کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 13
کاوشوں کو خراج تحسین پیش کر ر ہے ہیں ۔
نادانی کی انتہاء:
لیکن افسوس کہ آج نام نہاد مسلمانوں کا ایک گروہ اس سرمایۂ ناز و افتخار کو ظنون و اوہام کا پلندہ خیال کرتا ہے اور حدیث و سنت کے تمام ذخائر کو عجمی سازش قرار دیتے ہوے اسے اسلام کے حسین چہرہ پر بدنما داغ سے تعبیر کرتا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ اندازِ فکر اسلامی ثقافت اور اپنے فکری، علمی اور تاریخی سرمایہ کو اپنے ہاتھوں تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
اس عقل و ذہن اور اس قماش کے لوگ اپنی نادانی اور جہالت کے باعث اس امر پر ادھار رکھائے بیٹھے ہیں کہ اسلامی لٹریچر کے تمام ذخائر کو غیر یقینی ثابت کریں اور وہ اعمال جو عبادت کی حیثیت میں ڈیڑھ ہزار سال سے معمول آرہے ہیں انہیں غیر اسلامی بلکہ دورِ جاہلیت کی یادگار قرار دیں ۔ انہیں اس قسم کے خیالات کے اظہار میں ذرّہ بھر جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ ان کی اس رائے کو تسلیم کر لینے کے لازمی نتائج کیا ہوں گے اور اس کو مان لینے کے بعد صحابہ کرام، تابعین عظام، محدثین، فقہا اور دیگر اسلاف کی نسبت ہمیں کیا اعتقاد رکھنا ہو گا؟
اسلامی نظام پر بے اعتمادی:
ہمارے ملک میں اس گروہ کے سرغنہ مسٹر غلام احمد پرویز ہیں ۔ انہوں نے ’’ادارہ طلوعِ اسلام‘‘ کے نام سے ہم خیال حضرات کو اپنے گرد جمع کر رکھا ہے اور انہی مسائل پر مشتمل لٹریچر شائع کرنے میں مصروف ہیں ۔ آگے بڑھنے سے پیشتر ہم آپ کو مسٹر پرویز کے خیالات کی ایک جھلک دکھانا ضروری خیال کرتے ہیں ۔
پرویزؔ صاحب اپنے ایک مضمون میں قربانی کو غیر اسلامی رسم ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’یہاں قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اس قربانی کے لئے کوئی حکم اور کوئی سند موجود نہیں تو ہزار برس سے یہ کس طرح متواتر چلی آرہی ہے اور اس کے خلاف کسی نے آواز کیوں نہ اُٹھائی؟ یہ سوال بہت اہم ہے اور اس کا جواب اس وقت ملے گا جب کوئی مردِ حق گو اسلام کی تاریخ لکھے گا۔ اس لئے کہ یہ سوال ایک قربانی تک ہی محدود نہیں یہ تو پورے کے پورے اسلامی نظام کو محیط ہے۔ وہ دین جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا تک پہنچایا تھا اس کا