کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 12
قبول کرنے سے قطعاً انکاری ہے کہ ایک ’’بدعت‘‘ کو جزوِ دین بنا کر اس کی مشرعیت پر سینکڑوں احادیث ضع کر لی جائیں اور پوری امت آنکھیں بند کیے بیٹھی رہے۔ اس کے برعکس ہماری تاریخ میں ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ دین میں ادنیٰ سے ادنیٰ اضافہ گوارا نہ کیا گیا بلکہ اس کے خلاف نہایت شدت سے صدائے احتجاج بلند ہوئی حتیٰ کہ قید و بند کی سختی اور دار و رسن کی آزمائش بھی اس میں سدِّ راہ نہ ہو سکی۔ ان حالات میں اگر اس تواترِ عملی کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر بتایا جائے کہ آخر تاریخ کا معیار کیا ہے؟ اور وہ کونسا اسلوب تحقیق ہے جسے اختیار کیا جائے اور اس کی روشنی میں تاریخ کی جانچ پڑتال کی جائے؟ علم اسماء الرجال کی وسعت: ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ خلافتِ راشدہ کے بعد دورِ امویہ اور عہدِ عباسیہ میں متعدد احادیث وضع کی گئیں اور بعد کے زمانے میں کئی ایک بدعات کو داخلِ اسلام کرنے کی ناروا جسارت کی گئی۔ لیکن ہم انتہائی خوش قسمت ہیں کہ محدثینِ کرام رحمہ اللہ نے اپنی کڑی اور بے لاگ تنقید سے ان تمام مساعی کو ناکام بنا دیا اور سرورِ کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عمل و ارشادات کو کذب و بناوٹ اور ترمیم و اضافہ سے محفوظ رکھنے کے لئے رجال و اسانید کے دفاتر مرتب کر ڈالے اور جرح و تعدیل کے وہ متوازن اور فطری قواعد ترتیب دیئے کہ دودھ اور پانی الگ کر دکھایا۔ انتہا یہ کہ اس اہم مقصد کے لئے لاکھوں ناقلین کی امانت و دیانت، تقویٰ و طہارت، ثقاہت و نقاہت کے علاوہ ان کے مرگ و حیات اور تعلیم و تعلم کی تفصیلات اور تلامذہ و اساتذہ کے تمام سلاسل کو مدون اور منضبط کر ڈالا اور یہ سب کچھ محض اس لئے ہوا کہ قرآن اور صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی غلط بات منسوب نہ ہو سکے اور دین اپنی اصل صورت میں محفوظ رہے۔ علمائے سلف کی مساعی: علمائے سلف کی انہی مساعیٔ جمیلہ کا ثمرہ ہے کہ آج بھی قرآن کی تلاوت اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہوئے نہ تو بُعدِ زمانی محسوس ہوتا ہے اور نہ ہی اس چشمۂ صافی میں کسی تکدّر کا احساس ہتا ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قرآن مجید اپنی تمام رعنائی اور عین موقع کی مناسبت سے ہمارے سامنے نازل ہو رہا ہے اور احادیثِ نبویہ ہم خود رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سن رہے ہیں اور ہمارے اسلاف کی یہی علمی اور تحقیقی مساعی ہیں کہ آج محققینِ یورپ ہمیں رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور ہمارے محدثینِ کرام رحمہ اللہ کی مثالی