کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 10
واقعات کسی بڑے منصوبے کا پیش خیمہ ہیں جن سے عوامی ردِّ عمل کا اندازہ کیا جا رہا ہے۔
تعجب تو اس بات پر ہے کہ ’’عوامی حکومت‘‘ میں ہمیں یہ سب کچھ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ غرض جو حشر روٹی کپڑے کے نعرہ کا ہوا، اس سے بڑھ کر نعرۂ جمہوریت کا ہوا۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی؟ جس پہلو سے بھی جائزہ لیا جائے مایوسی ہی ہو گی۔
سٹالن، ہٹلر اور مسولینی، جس قدر فسطائی ذہنیت کے مالک تھے اور جو انجام ان کا ہوا، دنیا جانتی ہے ہمارے اصحاب اقتدار کو ان سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ کاش! یہ لوگ قوم کے ساتھ کچھ نیکی کریں اور اس کو غلط راہ پر ڈالنے سے پرہیز کریں ۔
مدینہ منورّہ
عبد الرحمٰن عاجزؔ (مالیر کوٹلوی)
ہر شے سے حسین صورتِ سردارِ مدینہ قرآنِ مبین صورتِ سرکارِ مدینہ
فردوسِ زمیں خطۂ گلزارِ مدینہ ہیں درجِ ثمیں کوچہ و بازارِ مدینہ
اللہ رے یہ حسن، یہ شان یہ سج دھج گوہر ہیں کہ بام و درو دیوارِ مدینہ
سامان ہیں دلبستگیٔ قلب و نظر کا وہ وادیاں ، وہ کھیت، وہ آبارِ مدینہ
اللہ کے نشانات فرشتوں کے مقامات وہ دشت، وہ باغات، وہ کہسارِ مدینہ
ہر صبح معنبر ہے تو ہر شام معطر! یہ گلشنِ جنت ہے؟ کہ گلزارِ مدینہ
صدلالہ در آغوش ہے خارِ رہ بطحا ہے شمع سرطور شبِ تارِ مدینہ
ہر اہل نظر کے لئے آنکھوں کی طراوت سر سبز کھجوروں کے وہ اشجارِ مدینہ
پھر دُہلنے لگی دل سے گناہوں کی سیاہی اللہ رے یہ بارشِ انوارِ مدینہ
اربابِ مدینہ کے وہ ہنستے ہوئے چہرے چہرے کہ گل و لالۂ گلزارِ مدینہ
سنگریزے جو یہ مسجدِ نبوی میں پڑے ہیں لگتے ہیں ہمیں تو دُرِ شہوارِ مدینہ
یہ بات عقیدت کی ہے عاجزؔ سے نہ پوچھیں
کیفیتِ شیرینیٔ اثمارِ مدینہ