کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 9
امام خطابی رحمہ اللہ : امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ان المرأۃ لا تلی الامارۃ ولا القضاء یعنی عورت قضاء اور امارت کے منصب پر فائز نہیں ہو سکتی۔ (فتح الباری) علامہ آلوسی: تفسیر روح المعانی میں علامہ آلوسی بغدادی اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : قد ورد الھن ناقصات عقل و دین والرجال بعکسھن ولذا خصوا بالرسالة والنبوۃ علی الاشھرو بالامامة الکبری (جلد ۵ ص ۳۳) یعنی حدیث میں وارد ہے کہ عورتیں مردوں کے برعکس عقل اور دین میں ناقص ہیں ۔ اس لئے رسالت، نبوت اور امامت (مملکت کی سربراہی) کو صرف مردوں کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔ جامع صغیر کی شرح: السراج المنیر میں لن یفلح والی حدیث کے تحت لکھا ہے کہ: لنقصھا وعجزھا والوالی مامور بالبروز للقیام بشان الرعية والمرءۃ عورۃ لا تصلح لذٰلک فلا یصح ان تتولی الامامة ولا القضاء یعنی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل، دین اور قوت کے لحاظ سے ناقص اور ناتواں ہے اور رعیت کی نگرانی کے لئے والیٔ مملکت کو کھلم کھلا سامنے آنا پڑتا ہے۔ چونکہ عورت سراپا شرم و حیا ہے۔ اس لئے وہ اس کی اہل نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اس کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ امامت (حکومت) اور قضا (ججی) کی ذمہ داری سنبھال سکے۔ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ : مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور تفسیر بیان القرآن میں لکھتے ہیں : ’’ہماری شریعت میں عورت کو بادشاہ بنانے کی ممانعت ہے۔ پس بلقیس کے قصہ سے کوئی شبہ نہ کرے۔ اوّل تو یہ فعل مشرکین کا تھا۔ دوسرے اگر شریعتِ سلیمانیہ نے اس کی تقریر بھی کی ہو تو شرع محمدی میں اس کے خلاف ہوتے ہوئے وہ حجت نہیں ۔‘‘ (بیان القرآن جلد ۸ ص ۸۵) حضرت مولانا سیّد ابو الاعلی مودودی: بانیٔ امیرِ جماعتِ اسلامی حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی فرماتے ہیں کہ: