کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 8
کی اہل کیسے ہو سکتی ہے؟ (ملخصاً نبراس ص ۵۳۶)
شیخ محدث دہلوی رحمہ اللہ :
حضرت شیخ عبد الحق محدّث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ازیں جا معلوم شد که زن قابلِ ولایت و امارت یست (اشعۃ اللمعات)
یعنی مندرجہ بالا حدیث کی رو سے ثابت ہوا کہ عورت حکومت اور امارت کی اہل نہیں ہے۔
صوفیاءِ کرام کا فیصلہ:
حضرت امام شعرانی فرماتے ہیں کہ سربراہِ مملکت کے لئے مرد ہونا شرط ہے اور فرمایا، اہلِ کشف صوفیاء کرام نے مذکر ہونے کی شرط، ہر داعی کے لئے لازمی قرار دی ہے اور آج تک ہمیں کسی سے یہ اطلاع نہیں پہنچی کہ مریدوں کی اصلاح کے لئے میدان میں سلف صالحین کی کوئی خاتون اتری ہو۔ عورتیں نیک تو یہ ہو سکتی ہیں لیکن سیاسی ربراہ اور داعی نہیں ہو سکتیں جیسے حضرت مریم رضی اللہ عنہا اور آسیہ رضی اللہ عنہا مبارک ہستیاں تھیں ۔ ان کی عبارت یہ ہے:
وقد اجمعوا علی اشتراط ذکورته ....... وقد اجمع اھل الكشف علي اشتراط الذكورة في كل داع الي الله ولم يبلغنا ان احدا من نساء السلف الصالح تصدرت لتربية المريدين ابدا النقص النساء في الدرجة وان ورد الاكمال في بعضھن كمريم بنت عمران واٰسيةامرأة فرعون فذٰلك كمال بالنسبة للتقويٰ والدين لا بالنسبة للحكم بين الناس وتسليكھم في مقام الولاية وغاية امر المرأة ان تكون عابدة زاھدة (ميزان كبریٰ)
اسی طرح ائمہ احناف کی مشہور اور مستند کتاب بلکہ فتاوٰی در مختار اور اس کی شرح شامی المعروف رد المحتار میں بھی عورت کے لئے سربراہی کو حدیث مذکور کے لحاظ سے ناجائز قرار دیا گیا ہے ۔ [1]
ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ کہیں کہ مندرجہ بالا تصریحات تو صدرِ مملکت کے منصب کے بارے میں ہیں ۔ ذیلی ملازمتوں کے بارے میں نہیں لیکن ہمارے نزدیک اس کے تحت تمام سرکاری ملازمتیں ہیں ۔ چنانچہ امامانِ دین نے اس کی تصریح فرمائی ہے:
[1] ملاحظہ ہو رد المحتار جلد ۴ ص ۴۹۴