کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 7
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ صحابی نے حضور کا یہ ارشاد اس وقت سنایا تھا جب متحدہ محاذ (حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ) کی طرف سے کسی نے ان کو حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی قیادت میں لڑائی کے لئے دعوت دی تھی۔ غور فرمائیے! یہ دونوں محل و موقعے کس قدر یاس انگیز اور مجبوری کے موقعے ہیں لیکن اس کے باوجود ارشاد ہوتا ہے، ’’کامیابی مشکل ہے‘‘ حالانکہ حالات کا جو اضطرار تھا اس کی بنا پر یہ کہہ دیا جاتا، ’’خیر! کوئی حرج نہیں ‘‘ مگر ایسا نہیں کیا۔ کیوں ؟ صرف اس لئے کہ عورت کی قیادت سنت نہ بن جائے اور خود حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث کو سننے کے بعد بہت غم کیا اور آپ جب کبھی آیت وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ پڑھتیں تو رو پڑتیں یہاں تک کہ آنچل تر ہو جاتا۔ (در منثور) حضرت امام نسائی رحمہ اللہ نے مندرجہ بالا حدیث کا عنوان یہ رکھا ہے۔ النھی عن استعمال النساء فی الحکم (نسائی شریف جلد ۲، ص ۳۰۴) یعنی حکومت میں عورتوں کو مقرر کرنے کی ممانعت کا بیان ائمۂ دین کے ارشادات علامہ نسفی: نے سربراہ کے لئے یہ شرطیں لگائی ہیں : یشترط ان یکون من اھل الولاية المطلقة اي مسلماحر اذكرا اقلا بالغا يعنی اس كے لئے یہ شرط ہے کہ مسلمان ہو۔ آزاد ہو، مرد ہو اور عاقل بالغ ہو۔ (عقائد نسفی) پھر فرمایا۔ عورت نہ ہو، کیوں ؟ والنساء ناقصات عقل و دین یعنی عورتیں عقل اور دین دونوں لحاظ سے نامکمل ہیں ۔ مصنفِ نبراس: نبراس کے مصنف نے شرح عقائد نسفی میں عورت کی سربراہی کے عدمِ جواز کے لئے چار وجوہات بیان فرمائی ہیں : 1. ایک یہ کہ عورت عقل اور دین دونوں میں ناقص ہے۔ 2. حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس قوم نے اپنا والی عورت کو بنایا وہ کبھی کامیاب نہ ہو گی۔ 3. عورت کے لئے پردہ اور مردوں کی محفل میں جانے سے پرہیز ضروری ہے۔ 4. عدمِ جواز پر اُمّت کا اجماع ہے جو بیچاری امامتِ صغریٰ (نماز) کی اہل نہیں وہ امامتِ کبریٰ (حکومت)