کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 45
پر ہے جس میں آپ کی بصیرت کو سند سمجھا جاتا ہے یہاں تک کہ حافظ صاحب مرحوم سے شدید اختلافات رکھنے والوں نے بھی موصوف کو افتاء میں وحید العصر مانا اور اہم سے اہم تر مسئلہ میں آپ کی صلابت رائے کا لوہا قبول کیا۔ آپ کی تنقید اور پکڑ اتی مضبوط ہوتی تھی کہ جب کسی بڑے سے بڑے عالم کی گرفت کی تو اسے جواب دینے کا یارانہ ہوا۔ یو بندی مسلک کے خاتمۃ المحدثین مولانا انور شاہ صاحب مرحوم کی مسئلہ ’’الفاتحۃ خلف الامام‘‘ پر مشہور عام کتاب فصل الخطاب (عربی) کا جواب بنام ’’الکتاب المستطاب‘‘ (عربی) لکھا۔ مولٰینا موصوف اس کے عرصہ بعد تک زندہ رہے لیکن ان کی طرف سے یا ان کے کسی دیگر ساتھی کی طرف سے جواب نہ آیا۔
اسی طرح زیر نظر کتاب مشہور عالمِ دین دیو بندی گروپ کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی ایک کتاب ’’الاقتصاد فی التقلید والاجتہاد‘‘ ہی کا جواب ہے جس میں انہوں نے اہل حدیث پر نہایت سخت طعن و تشیع سے کام لیتے ہوئے انہیں یکے از ’’فتنۂ عظیمہ‘‘ قرار دیا اور اہل حدیث کے چودہ امتیازی مسائل قرار دیتے ہوئے انہیں حدیث کے خلاف قرار دیا۔ حافظ صاحب مرحوم نے اگرچہ ان مسائل کی اس دور میں گرما گرمی اور اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے حقیقت بیان کی ہے اور چند ایک مسائل کے حدیث کے مطابق ہونے پر پُرزور دلائل دیئے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بتلا دیا ہے کہ باقی مسائل شافعہ وغیرہ کے ہیں جو تقلید کے اعتبار سے حنفیہ ہی کے مثل ہیں اس لئے ان کے جوابات کی ذمہ داری اہل حدیث پر نہیں ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں اہم اصول جو اہل حدیث کے لئے موصوف نے پیش کیا ہے وہ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں :
’’اہل حدیث کو چونکہ کسی خاص امام سے تعلق نہیں بلکہ جدھر حدیث ہے وہی ان کا مذہب ہے۔ اس لئے ممکن نہیں کہ ان کے اتفاقی مسائل غلط ہو جائیں ۔‘‘
حافظ صاحب کی کلام مذکور سے دو چیزیں خود اہل حدیث کے لئے نصیحت ہیں :
1. اہل حدیث کو آمین، رفع یدین اور فاتحہ کے مسئلہ پر اس لئے نہ اڑنا چاہئے کہ یہ ایک یا بہت سے اماموں کے متفقہ مسئلے ہیں بلکہ اس لئے کہ اماموں کے امام، امام المتقین اور سید المرسلین کی سنت ہیں ، مثلاً رفع الیدین، آمین وغیرہ۔
2. بالفرض اگر کسی اہل حدیث کا کوئی مسئلہ سنتِ صحیحہ کے مطابق نہ ہو تو وہ مسئلہ اہل حدیث کا ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ اہل حدیث کا عقیدہ اس فکر پر مبنی ہے کہ مطابقتِ سنت ہی معیار، حق ہے اور وہی