کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 40
’’تم نے ہماری ناک کاٹ ڈالی، لڑکیوں کو سکول بھیجنا آخر کہاں کی شرافت ہے۔ انہیں کونسا پٹواری یا تھانیدار بننا ہے۔ آج تم نے اسے سکول بھیجا ہے تو کل اس کے بال کٹواؤ گی اور پھر وہ گلیوں میں آوارہ پھرے گی۔ برادری ہمارا حقہ پانی بند کر دے گی۔ بردار! جو آئندہ اسے سکول بھیجا۔‘‘ پھر اس پر تبسم صاحبہ نے یہ طنز کیا ہے کہ: ’’جو لڑکی میلوں دور کھیتوں میں کھانا دینے جا سکتی ہے۔ ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھیل سکتی ہے، وہ اگر تھوڑی سی دور سکول چلی گئی تو غصے کی کونسی بات ہوئی؟‘‘ (ملخصاً طلوع اسلام ستمبر ص 15) بات سکول کی نہیں اس نصاب، نظامِ تعلیم اور ماحول کی ہے جس میں زن، نازن بن جاتی ہے، جن اندیشوں کا بزرگوں نے اظہار کیا ہے، کیا آج وہ حرف بحرف صحیح نہیں نکلے؟ پھر ان پر اعتراض اور اچنبھا کا ہے کا؟ دراصل جن بزرگوں نے اندیشوں کا ذِکر کیا ہے، محترمہ تبسم سلطانہ کے لئے وہ اندیشے اندیشے ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ان کے لئے وقت پاس کرنے کا ایک ذریعہ، ترقی اور حسن معاملہ کا معیار اور الڑھ شوخیوں کا ایک دلچسپ بہلاوا ہے۔ اقبال مرحوم نے جو کہا ہے وہ شاید آپ کی اسی تعلیم کے متعلق کہا ہے جس کی تڑپ آپ کے دل میں چٹکیاں لے رہی ہے۔ جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن ہے شق و محبت کے لئے علم و ہنر موت رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے روشن ہے نگہ آئینۂ دل ہے مکدّر! بڑھ جاتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر (ضرب کلیم ص 95-91)