کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 4
قرآنِ حمید سے فرض اپنی اور خلقِ خدا کی اصلاح ہے۔ باہر بھی اور اندر بھی۔ مگر ان سے کہا جاتا ہے کہ تمہیں صرف اپنی فکر چاہئے۔ گھر میں رہ کر جو ہو سکتا ہے کرو، باہر نکلنے کی ضرورت نہیں اور سرکاری ملازمتوں کا دائرہ کار ’’گھر‘‘ نہیں ’’باہر‘‘ ہے۔ اس لئے یہ سیاسی گراؤنڈ زنانہ ٹیم کے لئے بالکل ناسازگار ہے۔ پردہ کی پابندی: ہمیں حکم ہوتا ہے: اِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَاسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ (الاحزاب) جب کوئی چیز تم ان (عورتوں ) سے مانگو تو پردہ کے پیچھے سے مانگو۔ ظاہر ہے جو سربراہِ مملکت ہو اس کے لئے یہ پابندی بے معنی شے ہے اور نہ یہ اس کے لئے ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض یہ فرمائیں کہ ان آیات کا تعلق ازدواجِ مطہرات سے ہے تو عرض ہے کہ جہاں اتنی احتیاط خود ازواجِ مطہرات جیسی مبارک ماؤں کے لئے ضروری ہے وہاں دوسری تیسری خواتین اور پاکستانی ماؤں کے لئے کتنی ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ مفسرین نے لکھا ہے کہ گو ان آیات میں خطاب ازواجِ مطہرات کو کیا گیا ہے تاہم ان کا حکم عام ہے۔ چنانچہ لکھا ہے: لان موردھا ان کان خاصا فی حق ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم لکن الحکم عام لکل من المومنات (تفسیر احمدی) یعنی گو ان آیات کا نزول ازواج مطہرات کے بارے میں ہوا ہے تاہم حکم عام ہے اور اس میں تمام مسلمان عورتیں شامل ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کا تعامل: تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اور صحابیات رضی اللہ عنہن نے اس حکم کی سختی سے پابندی کی تھی۔ کان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسدون الثقب والکوی فی الحیطان لئلا تطلع النساء علی الرجال (مجالس الابرار) یعنی حضور کے صحابہ دیواروں کے جھروکوں اور سوراخوں کو بند کر دیا کرتے تھے تاکہ عورتیں مردوں کو نہ جھانکیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: المرءۃ عورۃ فاذا اخرجت استشرفھا الشیطان (ترمذی۔ ابن مسعود) عورت سراپا عریانی کا نام ہے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں لگ جاتا ہے۔