کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 39
دیکھو پھر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی کتابوں کا مطالعہ کرو۔ اس کے بعد حضرت شاہ اسمٰعیل شہید رحمہ اللہ کے علوم سے استفادہ کرو پھر شاہ عبد العزیز کے واسطہ سے امام ولی اللہ کے علوم کو سمجھو۔‘‘ (الحق جولائی 1972ء) دوسرے لفظوں میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کو دیو بندیوں کی عینک سے دیکھو۔ شاہ ولی اللہ کو دیو بندیوں کے خصوصی افکار کے شیشہ میں اتارنے کی یہ کوشش حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کو سمجھنے کے لئے نہیں ، اپنی بات شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی زبان سے اگلوانے کی ایک نامناسب کوشش ہے۔ حضرت مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ کے تعامل سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ولی اللّٰہی تحریک اور شاہ شہید رحمہ اللہ کے جہاد فی سبیل اللہ میں علمائے حدیث کی خدمات کو چھپا کر دیو بندیوں کے خصوصی حلقہ کے پلّے میں باندھ دینا چاہتے ہیں ۔ اس لئے ان کی زندگی میں حضرت مولانا مسعود عالم ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس کا نوٹس لینا پڑا۔ جب اتنے بڑے لوگ یوں سوچتے ہیں تو یقین کیجئے! ہمارے حسن ظن کو کافی سے زیادہ صدمہ ہوتا ہے۔ بہرحال ہمارے نزدیک حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے افکار اور کتب کے مطالعہ کے لئے جو راہ مولانا سندھی رحمہ اللہ نے تجویز کی ہے، ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے سوچنے کا انداز ناقدانہ اور مجتہدانہ ہے۔ اس کے برخلاف علمائے دیو بند کے سوچنے کا انداز تقلیدی اور فرقہ وارانہ ہے، ان دونوں میں کیسے ہم آہنگی ہو سکتی ہے۔ فاضل مضمون نگار مزید لکھتے ہیں کہ: ’’ایک موقعہ پر فرمایا، پہلے ہم سمجھتے تھے کہ امام ولی اللہ کی کتابوں میں کوئی غلطی نہیں ہے پھر ان کی بعض بڑی بڑی غلطیوں کا علم ہوا۔‘‘ (ص 60 الحق) سب سے بڑی غلطی ہی یہ تھی کہ آپ نے پہلے ان کو مافوق الاغلاط تصور کر لیا تھا۔ بندوں کو مقام الوہیت پر فائز کرنے سے اس قسم کے اوہام کا پیدا ہونا قدرتی بات ہوتی ہے۔ بہرحال کتاب اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمارے نزدیک کوئی بھی ہستی لغزش سے منزّہ نہیں ہے۔ (ج) لڑکیوں کے لئے سکول کی تعلیم ماہنامہ طلوع اسلام نے ’’مجلس مذاکرہ‘‘ کے عنوان کے تحت تبسم سلطانہ کا ایک مذاکرہ شائع کیا ہے جس میں اس نے اپنی ایک سہیلی کا رونا بیان کیا ہے کہ وہ سکول پڑھنے چلی گئی تو سارا خاندان ہی اس پر ٹوٹ پڑا کہ: