کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 37
مولانا بنوری کی اس رائے سے اتفاق کرنا مشکل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب تنفیذ کے علاوہ منصبِ تشریع بھی ہے۔ قرآنی تصریحات ملاحظہ فرمائیں : ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا (الجاثیہ) پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شریعت اور خاص طریقہ پر لگایا پس آپ اس کی پیروی کریں ۔ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ (الانعام) حکم صرف خدا ہی کے لئے ہے۔ یہ بھی غلط ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام وحی متلو کا انتظار نہیں کیا کرتے تھے، بخاری میں ہے کہ: فما اجابنی شیء حتی نزلت اٰية المیراث جب تک آیتِ میراث نازل نہ ہوئی مجھے جواب نہ دیا۔ حضرت شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں : ’’مذہب صحیح آں ست کہ امر تشریع مفوض بہ پیغمبر نمی باشد۔ زیرا کہ منصب پیغمبری، منصبِ رسالت وایلچی گریست نہ نیابت خدا نہ شرکت در کارخانہ خدائی۔‘‘ (تحفہ اثنا شریہ) ’’بدیہی است کہ امام بلکہ نبی نیز شارع نیست۔ شارع حقیقی حق تعالیٰ است۔‘‘ (محولہ بالا) حضرت امام ابن الہمام حنفی اور شارح لکھتے ہیں : المختار عند الحنفية المتاخرین ما عن اکثرھم انه علیه السلام مامور فی حادثة لا وحی فیھا بانتظار الوحی اولا ما کان راجیه ای الوحی الی خوف فوت الحادثة بلا حکم ثم بالاجتھاد ثانیا اذا مضی وقت الانتظار ولم یوح الیه کان عدم الوحی الیه فیھا اذن فی الاجتھاد حینئذ (تحریر مع شرح) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وحی کا انتظار کرنا ضروری تھا۔ پیش آمدہ صورت کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو تو پھر اجتہاد کا۔ ایک بریلوی مولوی صاحب (مولوی سید محمد کچھوچھوی) نے ’’التحقیق البارع فی حقوق الشارع‘‘ نامی کتاب لکھی تھی جس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے یہی مولانا بنوری احب والا منصبِ تشریع ثابت کیا گیا تھا اس کا رد حضت مولانا ابو المآثر حبیب الرحمٰن اعظمی دیو بندی نے تحریر کیا۔ اس میں وہ لکھتے ہیں : ’’اس میں کسی نوع سے دخل نہیں ہے نہ بالذات کسی کو یہ اختیار حاصل ہے نہ بتفویضِ