کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 36
تجزیۂ افکار
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب تشریع بھی ہے؟
مولانا عزیز زبیدی واربرٹن
معزز معاصر ’’بینات‘‘ ستمبر 1972ء میں مولانا نبوری دیو بندی کا ایک مضمون بعنوان ’’منصبِ رسالت اور سنت کا تشریعی مقام‘‘ شائع ہوا ہے۔ مولانا بنوری نے جامع ترمذی کی ایک شرح معارف السنن لکھی ہے، جس کا ایک مقدمہ ’’عوارف المنن‘‘ کے نام سے الگ حریر فرمایا ہے، مندرجہ ذیل مضمون مولانا مووف کے اسی مقدمہ کے ایک باب کا ترجمہ ہے ادارہ بینات نے پیش کیا ہے۔ اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منصبِ تشریع پر روشنی ڈ الی گئی ہے۔ مضمون جتنا علمی ہے افسوس! ویسا واضح اور مرتب نہیں ہے۔ مولانا بنوری اس میں لکھتے ہیں :
قرآنِ حکیم کی وہ آیات جن میں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منصبِ تنفیذِ احکام شرعیہ کی تائید ہوتی ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ احکامِ شرعیہ اوامر ہوں یا نواہی، اصل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نافذ فرماتے ہیں اور قرآنِ کریم ان کی تصدیق و تائید کرتا ہے۔‘‘ (بینات ستمبر 1972ء ص ۱۸)
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا
میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تشریع و تجویز کو وَمَا جعلنا فرما کر اپنی تشریع و تجویز قرار دیا۔‘‘ (ص 20-21)
لہٰذا ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ہی تشریع و تنفیذِ احکامِ الٰہیہ ہے خواہ قرآنِ عزیز میں ان احکام کا ذِکر آیا ہو یا نہ آیا ہو، قرآنِ عزیز تو آپ کے نافذ کردہ احکام کی تصدیق و توثیق کرتا ہے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم احکامِ الٰہیہ کے نفاذ میں قرآن کریم اور وحیِ متلو کا انتظار نہیں کرتے تھے۔‘‘ (ص 21)
اذان کی ابتداء اور تشریح صاحبِ شریعت علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رائے اور ذوقِ معصوم کے ذریعے عمل میں آئی۔ (ص 22)
اس پر تفصیلی تبصرہ تو پھر سہی بشرطیکہ وقت ملا۔ سر دست ہم اس پر علمائے دیو بند اور ائمہ احناف کا مسلک پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ آپ موازنہ کر سکیں ۔