کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 31
دشمنانِ اسلام ذلیل و خوار تھے۔
مخلوط تعلیم توخیر سمِّ قاتل ہے ہی لیکن خواتین کو مردوں سے الگ تھلگ رکھ کر بھی ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو انہیں باحیاء اور پاک دامن رہنے کی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ ماں جیسی عظیم ہستی کی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے تیار کرے تاکہ اپنی عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ اخلاقی تربیت دے سکیں ۔ خدا، رسول اور فکرِ آخرت کو ان کے ذہنوں میں راسخ کریں ، زمانہ کی مسموم فضاؤں سے ان کو متاثر نہ ہونے دیں اور بچوں میں روحِ جہاد پھونک کر اسلامی تاریخ میں مثالی ماؤں کا کردار ادا کریں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ ان کے لئے بھی قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر اور حدیث شریف کی تعلیم لازمی قرار دی جائے اور جب بھی اس کے باعث ان میں ایمان کی پختگی اور کمالِ عفت پیدا ہو جائے گا تو پھر وہ خواہ کوئی سا علم بھی حاصل کریں گی ان کے لئے مضرت رساں نہ ہو گا۔ حتیٰ کہ وہ اپنے نسوانی حجاب اور حیا کو ملحوظ رکھ کر مردوں کے کاموں میں گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر بھی اگر ان کا ہاتھ بٹائیں گی تو مطعون نہ ٹھہریں گی (بشرطیکہ ہمارا معاشرہ اس کی اجازت دے) کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بیویاں سفرِ حج اور سفرِ جہاد میں ان کی شریکِ سفر ہوتیں ، میدانِ جنگ میں زخمیوں کو پانی پلاتیں اور گھوڑوں کی رکھوالی کرتی تھیں لیکن تمام صورتوں میں اپنی نسوانیت اور شرم و حیاء پر کوئی آنچ نہ آنے دیتی تھیں ۔ [1]
الغرض دینی تعلیم و تربیت کی بدولت لڑکیاں خدمتِ شوہر، تربیتِ اطفال، امور خانہ داری اور اپنی عفت و عصمت کی حفاظت وغیرہ جیسے ضروری اور بنیادی کاموں کو عبادت سمجھ کر سر انجام دے سکتی ہیں جس کے باعث پورا معاشرہ یکسر اصلاح کی طرف گامزن ہو سکتا ہے اور تمام گھرانے دین و دنیا کے ہر قسم کے اطمینان سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں ۔ خدا کرے ہمارے تعلیمی ادارے اس شعر کی عملی تفسیر بن جائیں ۔
اک مقدّس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
قسمتِ نوع بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
[1] واضح رہے کہ قرونِ اولیٰ کے ادوار کے مسلم معاشرہ میں اس قدر امن و امان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: عنقریب ایک عورت تن تنہا اپنے سر پر سونے کا تھال رکھ کر مکہ سے مدینہ کا سفر کریگی لیکن اسے راہ میں کوئی ٹوکنے والا نہ ہو گا۔ اور صحابہ رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن ہمارے معاشرہ میں تو اس کا تصور بھی محال ہے چنانچہ اسی لئے میں نے اوپر ’’بشرطیکہ ہمارا معاشرہ اس کی اجازت دے‘‘ کے الفاظ نقل کئے ہیں۔