کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 29
بالائے طاق رکھ دیا جائے تو یہ ایک الگ بات ہے لیکن ماحول کے پروردہ مردوں اور عورتوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی کامیاب طریقے سے گزر سکیں گے یا اپنی اولاد میں اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا کر کے اور ان کو صحیح تریت دے کر ایک صالح معاشرہ کی تشکیل و تعمیر میں کوئی خدمت انجام دیں گے یا قوم کا کوئی بھلا کریں گے۔ تو اس میں اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا کر کے اور ان کو صحیح تربیت دے کر ایک صالح معاشرہ کی تشکیل و تعمیر میں کوئی انجام دیں گے یا قوم کا کوئی بھلا کریں گے تو اس سے بڑی حماقت اور کوئی نہ ہو گی۔ اسلامی طرزِ تعلیم سر چشمۂ ہدایت و رحمت ہے: یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم ہمارے لئے مفید ہونے کی بجائے نقصان دہ ثابت ہوا ہے اور اس نے ہمارے مسائل میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ لہٰذا عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم دوبارہ اپنے اس دینی طرزِ تعلیم کو اپنائیں جس میں نہ صرف ہمارے مسائل کا حل موجود ہے بلکہ اس کے فوائدِ عظمےٰ سے آشنا ہونے کے بعد ہم زندگی کی دوڑ میں دوسری تمام قوموں پر سبقت بھی لے سکتے ہیں ۔ دینی تعلیم کی اہمیت و افادیت لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ یہ انسان کو ایک اعلیٰ و ارفع مقصد عطا کرتی ہے اور یہ مقصد عبادت و رضوانِ الٰہی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ کہ میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج تو بذاتِ خود عبادت ہیں لیکن بہت سے کام ایسے بھی ہیں ۔ جو بظاہر دنیاوی امور سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اگر ان کو خدا وندِ کریم کی منشاء و رضا کے مطابق انجام دیا جائے تو وہ بھی عبادت ہی میں شمار ہوں گے۔ مثلاً رشتہ داروں سے حسن سلوک، والدین اور اساتذہ کی خدمت اور ان کا ادب و احترام، اولاد کی اعلیٰ تربیت، باہمی ہمدردی وغیرہ کے جذبات کے تحت زندگی بسر کرنا، تجارت، ملازمت اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں حدود اللہ کا پاس رکھنا اور ان سے تجاوز کرنا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان ہر شعبۂ حیات میں متعلقہ اسلامی اصول و ضوابط سے کما حقہ، واقفیت حاصل کرے۔ جو دینی تعلیم ہی کے ذریعے ممکن ہے۔