کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 28
اس دَور میں جب کہ شہوانی جذبات اپنے عروج پر ہوتے ہیں ، وہ نوجوان لڑکوں کے درمیان بیٹھ کر تعلیم حاصل کرے۔ اس سے بے تکلفی کے ساتھ بات چیت کر کے آزادانہ میل جول رکھے اور وہ بھی اس حالت میں کہ ایسے ایسے حیا سوز ملبوسات زیبِ تن ہوں کہ ایک عابد و زاہد شب زندہ دار بھی اگر اتفاقیہ دیکھ لے تو ایک بار تو ضرور ٹھٹک کر رہ جائے۔ اندریں حالات یہ تو بہ شکن قربتیں چند ہی دنوں میں جو رنگ لاتی ہیں تو بس یوں سمجھئے کہ فحاشی کے سینکڑوں نئے باب کھلتے اور رومان کے ان گنت عملی افسانے جنم لیتے ہیں جو کسی قوم کو تباہی کے مہیب غار تک پہنچانے میں شاندار خدمات انجام دیتے ہیں۔ ماہرین تعلیم مخلوط تعلیم کے جو فائدے گنواتے ہیں ان میں سب سے بڑا فائدہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مخلوط تعلیم سے لڑکوں اور لڑکیوں میں مقابلہ کی فضا پیدا ہوتی ہے جو ان کے لئے بہت زیادہ محنت اور حصولِ تعلیم میں لگن کا باعث بنتی ہے۔ ایسے لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ حدیث میں تو یہ آتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما خلا رجل بامرأۃ الا کان الشیطان ثالثھما کہ جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہتا ہے۔ اور اگر ایسی درسگاہوں کے ماحول کا جائزہ لیا جائے جہاں مخلوط تعلیم رائج ہے تو ہر کونے میں نوجوان جوڑے مسکراتے اور اٹھکیلیاں کرتے دکھائی دیں گے اور اگر مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں ہر جوڑے کے ساتھ ایک ایک شیطان کا تصور کر لیا جائے تو ہم نہیں سمجھتے کہ شیطان کی کاروائیاں ان کو محض ’’ضروری نوٹس‘‘ تیار کرانے میں ممد و معاون ہونے تک ہی محدود رہتی ہوں گی۔ ہاں ایک بات ان کی تسلیم کی جا سکتی ہے کہ اس طرح ’’مقابلہ‘‘ کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ خواہ یہ فضا رومان لڑانے کی ہو یا بے حیائی اور ننگِ انسانیت حرکات کا مظاہرہ کرنے کی، تعلیم کا بہرحال ستیاناس ہو کر رہا ہے۔ مرد اور عورت باہم جنس مخالف ہیں جن کے مسائل بھی مختلف ہیں اور شرم و حیا ایسے مسائل کو مرد اور عورت دونوں کی موجودگی میں سمجھنے سمجھانے میں مانع رہتی ہے۔ ہاں اگر شرم و حیا ہی کو