کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 27
پیٹ پال سکے۔ حالانکہ اول تو عورت کی تعلیم کا یہ مقصد ہی غلط ہے لیکن اگر اس میں کچھ معقولیت ہو بھی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو کس حد تک روزگار مہیا کرنے کا ضامن ہے؟ ان کی ایم۔اے۔، ڈبل ایم۔اے اور بسا اوقات پی۔ ایچ ڈی کے مساوی درجہ کی تعلیم ملازمت کے لئے آخر کسی کام آتی ہے اور پھر گھریلو اور اولاد کی تربیت کے کٹھن بوجھ کے بعد کس میں ملازمت کی ہمت ہوتی ہے نیز کوئی اچھی نوکری بھی تو کسی خوش قسمت کو ہی حاصل ہوتی ہے ورنہ اکثر لڑکیاں بے کاری یا غلط کاری کے ہتھے ہی چڑھتی ہیں اور ان کی پڑھائی پر کثیر محنت، قیمت وقت اور قیمتی دولت کاغذی ڈگریوں کی شکل میں فریم ہو کر کسی ڈرائنگ روم یا کمر میں آراستہ ہو کر رہ جاتی ہیں ۔ پھر جہاں اس تعلیم کے فائدے مفقود ہیں وہاں نقصانات بہت زیادہ ہیں مثلاً اکثر لڑکیاں اپنا بیشتر وقت پڑھائی پر صرف کرنے سے امورِ خانہ داری و سلائی وغیرہ سے عاری رہ جاتی ہیں اور انہیں اپنے گھر چلانے میں بڑی دِقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ بسا اوقات طعن و تشنیع سے تجاوز کر کے طلاق و تفریق کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں پڑھائی کے دوران زیادہ محنت کرنے سے جسمانی صحت کا متاثر ہونا بھی لازمی امر ہے۔ ایک عام لڑکی اور ایک تعلیم یافتہ لڑکی کی صحت کا عمومی مقابلہ کریں ۔ یہ لڑکی پہلی کے مقابلہ میں زیادہ کمزور، دبلی پتلی، زرد رُو، چہرے کے روپ اور قدرتی رونق سے عاری ہو گی۔ شادی کے بعد اسے کمزوریٔ صحت کی بناء پر گوناگوں مشکلاتکا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر یہ کمزوریٔ صحت اولاد کی صحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ کمزور مائیں کمزور اولاد کو ہی جنم دیں گی جس سے پورے معاشرہ اور پوری قوم کا متاثر ہونا لازمی ہے اور جس کے نقصانات محتاجِ بیاں نہیں ۔ مخلوط تعلیم: مخلوط تعلیم بلاشبہ ہمارے معاشرہ کے لئے ایک لعنت ہے۔ نئی روشنی سے متاثر بڑے بڑے ماہرینِ تعلیم خواہ اس کے کتنے ہی فائدے گنوائیں لیکن ’’وَاِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نّآَفْعِھِمَا‘‘ کے مصداق اس کی ایک قباحت ہی اس کی تمام خوبیوں پر پانی پھیر دیتی ہے اور وہ ہے عورت کی عصمت، عفت اور حیا کی ارزانی۔ ہمارا مسلم معاشرہ تو ہمیں اس بات کی اجازت بھی نہیں دیتا کہ عورت ننگے سر، ننگے منہ یا بغیر پردہ کے گھر سے باہر قدم ہی رکھے کجا یہ کہ عمر کے