کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 26
جتنی بے روزگاری تعلیم یافتہ طبقے میں ہے شاید ہی کسی طبقے میں موجود ہو۔ رہی یہ بات کہ موجودہ تعلیم سے تربیت سازی کا کام لیا جا سکے۔ لیکن یہ چیز دین و اخلاق کی مرہونِ منت ہے اور جہاں مقصدِ تعلیم مادی فوائد کا حول ہو، قطع نظر اس کے کہ یہ حاصل ہوتا ہے یا نہیں ۔ وہاں روحای قدروں کا کیا کام اور تربیت سازی ہو و کیونکر؟ بلکہ ایسی تعلیم تو روح کی موت ہوتی ہے۔ اسی لئے اکبرؔ مرحوم نے کہا تھا ؎ یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی! موجودہ دور میں تعلیمِ نسواں : عورتوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا بہت ضروری ہے۔ عورت ماں ہے اور اس کی گود بچہ کے لئے سب سے پہلی درسگا بنتی ہے پھر اس کی نگرانی میں بچپن کے معصوم دور میں حاصل کی ہوئی تعلیم ذہن میں ایسی راسخ ہو جاتی ہے کہ تاحیات اس کے اثرات رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دیندار گھرانوں کے بچے کیسی بھی سوسائٹی میں چلے جائیں ان میں وہ اثرات قائم رہتے ہیں ۔ اسی طرح تعلیم یافتہ والدین کے بچے نسبتاً زیادہ ہوشیار، چالاک اور ذہین ہوتے ہیں لیکن موجودہ دور میں ہمارے بچوں کی تہذیب اور علم کا مبلغ ممی، ڈیڈی اور پاپا تک محدود رہتا ہے کیونکہ عورت جس کو قوم کی ماں بننا ہوتا ہے، اسے یہی تربیت دی جاتی ہے اور اس کی تعلیم کے وقت ماں باپ کے پیش نظر مالدار شوہر اور عیاشی کی تلاش ہوتی ہے اور خود لڑکی کے سامنے شمعِ محفل بننے اور مردوں کے دوش بدوش چل کر انہیں زیرِ نگیں کرنے کا خیال ہوتا ہے۔ اندریں حالات ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنی اولادوں کو اخلاقی اور ذہنی تربیت دیں گی، عبث ہی نہیں مضحکہ خیز بھی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی اولادیں ان سے بھی بڑھ کر دین بیزار اور ملحد بنتی ہیں ۔ چنانچہ ہماری موجودہ نسل اپنے بزرگوں کے مقابلے میں ہزار گنا اپنے مذہب سے دور ہے بلکہ دین سے نفرت کے اظہار کو انہوں نے فیشن کے طور پر اپنا لیا ہے جس کا احباب کی محفلوں میں فخریہ ذکر کیا جاتا ہے۔ مادہ پرست ذہنوں میں یہ بات بھی بیٹھ گئی ہے کہ لڑکیوں کے لئے زیادہ تعلیم حاصل کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر شریکِ یات کسی حادثہ کا شکار ہو جائے یا خدانخواستہ طلاق وغیرہ کی صورت میں پیش آجائے تو اس صورت میں عورت کسی دفتر وغیرہ میں ملازمت کر کے اپنایا اپنے بال بچوں کا