کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 25
صلیبی شکستوں اور محکومیوں کا بھرپور انتقام لیا اور سادہ لوح مسلمان اس کے دامِ فریب میں کچھ اس طرح سے الجھ گیا کہ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی مفلوج ہو گئیں اور وہ اس سے آزادی پانے کے لئے بھی اسی فریب کا سہارا لینے لیا جس کا وہ شکار ہوا تھا لیکن آزادی پانے کی بجائے اس جال میں اور ہی الجھتا گیا۔
ہمارا مقصد تعلیم کو سبّ و شتم کرنا نہیں لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی قوم کا نظامِ تعلیم ہی اس کی تہذیب و تمدن کا صحیح آئینہ دار ہوتا ہے اور چونکہ ہماری موجودہ تعلیم کا ڈھانچہ بے خدا تہذیب کے پجاریوں کے ہاتھوں وضع ہوا تھا اس لئے اس کا یہاں اپنے تمام برگ و بار کے ساتھ آنا ضروری تھا جس کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری درسگاہوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں رائج شدہ نظامِ علیم ہمارے لئے زہرِ ہلاہل ثابت ہو رہا ہے جو طلبہ کو نہ صرف دین سے برگشتہ کرتا رہتا ہے بلکہ انجام کار طلباء کو ملحد بنا کر چھوڑتا ہے کیونکہ اکثر و بیشتر نصابی اور امدادی کتب غیر مسلم مصنفین اور ان کے مولدین[1] کی مرتبہ ہوتی ہیں جنہیں دین سے کوئی مس نہیں ہوتا۔ اور اسلامی افکار و خلاق سے بھی وہ بالکل کورے ہوتے ہیں ۔ اندریں حالات جدید تعلیم یافتہ طبقے کے بیشتر افراد اگر اکھڑ مزاج، بے ادب، من چلے ترش رُو، آزاد رَو اور اساتذہ اور والدین سے گستاخی سے پیش آنے والے نیز تکلّف اور تصنّع پر مر مٹنے والے، فیشن کے پجاری، اقربا اور اعزہ کو ٹھکرانے والے اور اپنے دوستوں میں اپنی ناک رکھنے کی خاطر اپنے غریب رشتہ داروں بلکہ غریب والدین تک کو نظر انداز کرنے والے ہیں تو کچھ تعجب کی بات نہیں ۔
مزید برآن اگر انسان کے سامنے کوئی واضح نصب العین موجود ہو تو وہ اپنے مقصد کو پا لینے کے لئے تن دہی سے کام کرتا ہے اور ثمرِ کامیابی چکھنے کے لئے اسی قسم کے اطوار و عادات کی نعمت سے بھی مال مال ہو جاتا ہے۔ جو کسی معاشرہ کی خوشحالی کی ضامن ہوتے ہیں لیکن ہماری تعلیم مقصدیت سے عاری ہے اور جب منزل ہی متعین نہ ہو گی تو اس کو پانے یا نہ پانے کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے اور اس سلسلہ میں محنت و کوشش چہ معنی وارد؟
افسوس ہے کہ ہم نے صحیح مقصد اور منزل سے صرفِ نظر کر کے صرف ایک سفلی مقصد ہی سامنے رکھا اور وہ ہے حصولِ معاش۔ لیکن موجودہ تعلیم معاشی تحفظ دینے میں بھی تو ناکام ہو چکی ہے۔ چنانچہ فی الوقت
[1] ان کی معنوی اولاد اور ان کے تریت یافتہ