کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 24
گیا اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کو نہ صرف تنگ نظر ملا کہہ کر انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا بلکہ حصولِ معاش کے سلسلہ میں بھی انہیں اس قدر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا کہ باعزت طریقے سے زندگی گزارنا ان کے لئے مشکل ہو گیا جبکہ تمام اعلیٰ عہدے، مناصب، کاروبار اور جاہ و چشم وغیرہ دنیوی تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے مخصوص ہو گئے۔ دراصل یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ مسلمانوں کا عقیدہ تو یہ تھا کہ دنیا زندگی گزارنے کا نام ہے اور دین ان قواعد و ضوابط کا نام ہے جن کے تحت زندگی بسر کی جائے۔ گویا اس طرح ان کی دنیا دین (خدائی ہدایت) کے تابع تھی اور اسی چیز سے انگریز کو چڑ تھی کیونکہ یہی چیز مسلمانوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر غلام بنانے میں ان کے آڑے آتی تھی۔ لہٰذا انگریز کی اسلام شمنی نے مسلمانوں کے اس عقیدہ کو پامال کرنا ضروری خیال کیا۔ چنانچہ جہاں اس نے علماء دین کو نفرت و حقارت کا نشانہ بنانے کا سامان کیا اور ان کی معاشی حیثیت کو مفلوج کر کے رکھ دیا وہاں دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والوں کو مناصب اور عہدوں کی رشوت پیش کر کے انہیں دین سے قطعی طور پر بیگانہ بنا دیا۔ جس کا نتیجہ ان کے حق میں خاطر خواہ برآمد ہوا۔ اور آج ہماری قوم اپنی تمام تر مذہبی پابندیوں سے بے نیاز ہو کر ایک طویل معاشی تگ و دو میں مصروف ہے۔ ہر کوئی مال و دولت کے حصول میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ خواہ اس کے لئے اسے رشوت، غبن، چوری، ڈاکہ، سمگلنگ، چور بازاری، سٹہ بازی، دغا و فریب اور دجل و جعل سازی جیسے شیع افعال کا مرتکب ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔ گویا کثرتِ جرائم کا پیشہ بھی بالواسطہ طور پر اسی غلط تعلیم سے جا ملتا ہے۔ جو انگریز کی در آمد شدہ تھی۔ دوسرا بڑا نقصان جو انگریزی تعلیم سے قوم کو پہنچا وہ یہ تھا کہ یہ تعلیم اپنے پیچھے اپنی پوری تہذیب لے کر آئی جس نے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو مکمل طور پر فرنگیت زدہ بنا دیا۔ ان میں ہر قسم کی اخلاقی برائی کو فروغ دیا۔ عریانی اور فحاشی حد سے بڑھ گئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ تہذیب وقتاً فوقتاً مسلمانوں کو کفر و الحاد کے انجکشن بھی دیتی رہی بلکہ اسلام سے برگشتہ و منحرف کرنے کے لئے شعائر اسلامی کا تمسخر اڑایا گیا اور اسلام کو نہایت مکروہ اور گھناؤنی شکل میں پیش کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اسلامی تہذیب و اقدار اور اپنے اسلاف کی روایات سے باغی ہو کر ذہنی اور عملی طور پر انگریز کے غلام بن گئے اور اس طرح انگریز کا وہ مقصد پورا ہو گیا جس کے لئے وہ کوشاں تھا۔ اس طرح اس نے اپنی