کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 23
موجودہ نظامِ تعلیم اور دینی تعلیم کی بڑھتی ہوئی اہمیت
ایک موازنہ، ایک جائزہ
ثریا بتول ایم۔ اے
تعلیم کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں ۔ تعلیم نہ صرف انسان کو مہذب بناتی اور اس کے اخلاق و کردار کو سنوارتی ہے بلکہ زندگی کے دشوار گزار اور پر پیچ راستوں پر چلنے کے لئے اس کے اندر حوصلہ اور جرأت بھی پیدا کرتی ہے۔ یہ انسان کو احساسِ سود و زیاں عطا کرتی ہے اور کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے کا شعور بخشتی ہے۔ انسان جس قسم کی تعلیم حاصل کرتا ہے، اس کی سیرت و کردار پر اسی قسم کے نقوش پختہ اور مرتسم ہو جاتے ہیں ۔ اور پھر انہی نقوش کے مطابق وہ اپنی زیست کی گاڑی کو رواں دواں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے پون صدی قبل بچوں کو ابتدائی تعلیم ہمیشہ مسجدوں سے متصل مکتبوں میں دی جاتی تھی جہاں انہیں سب سے پہلے قرآن مجید ناظرہ کی تعلیم دی جاتی تھی تاکہ ان کے مستقبل کی پوری عمارت قرآن مجید کی پاکیزہ تعلیم کی اساس پر تعمیر ہو۔
یہ وہ وقت تھا کہ تعلیم کے متعلق اہلِ اسلام میں دینی اور دنیوی کا امتیاز نہ تھا۔ ایک عالم آدمی کے لئے قرآن مجید ناظرہ کے علاوہ نوشت و خواند اور ابتدائی حساب میں مہارت نیز توحید و رسالت پر مبنی بنیادی عقائد، نماز اور روزہ جیسی بنیادی عبادتوں سے واقفیت اور عربی یا فارسی کی آسان ادبی کتابیں پڑھنے کو کافی سمجھا جاتا تھا۔ اس کے بعد جو شخص مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتا وہ بڑے مدارس میں جا کر تفسیر، حدیث، فقہ، طب، ہیئت اور فلسفہ پر مشتمل نصابی کتب پڑھتا اور یہی اس دور کی مکمل تعلیم تھی۔ یہ لوگ دینی تعلیم اور دنیاوی علیم کی اصطلاح سے واقف تھے نہ ان کے ہاں دین اور دنیا میں کوئی امتیاز تھا۔
موجودہ نظام تعلیم خرابیوں کی جڑ ہے:
لیکن جب سے انگریزی نظامِ تعلیم ہمارے ملک میں رائج ہوا، ہمارے دین اور دنیا، روح اور جسم اور مذہب اور سیاست میں امتیاز پیدا ہو گیا اور جوں جوں وقت گزرتا گیا۔ یہ امتیاز بڑھتا