کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 21
کے باوجود اہلِ فن کے ہاں موضوع ہوتی ہیں ۔ اس لئے کہ کثرت اس وقت کوئی فائدہ نہیں دیتی جب اس کا مدارکذّابین، متّہمین، متروکین یا مجہولین پر ہو جیسا کہ ان احادیث میں آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں جن میں سے کوئی بھی کسی کذاب یا متہم یا متروک یا مجہول (جس کی معرفت کبھی حاصل نہ ہو سکے) سے خالی نہیں ۔ اس قسم کی احادیث علمائے حدیث کے ہاں کسی متابع یا شاہد سے تقویت نہیں پکڑا کرتیں بلکہ اعتبار و تقویت کا مسئلہ بھی وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں صحیح حدیث تردید نہ کر رہی ہو اور یہاں تو (اعلیٰ رجہ کی) صحیح حدیث تین مساجد کے سوا سب جگہوں کی طرف سفر کرنے سے روک رہی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’اقتضاء الصراط المستقیم فی مخالفۃ اصحاب الجحیم‘‘ فرماتے ہیں ۔
’’کسی مخصوص قبر کی طرف سفر کی اجازت کے بارے میں کوئی ایک صحیح حدیث بھی ثابت نہیں بلکہ صحاح، سنن اور مساند کے مصنفین امام احمد وغیرہ جیسے ائمہ دین نے تو ایسی کوئی حدیث نقل بھی نہیں کی ان کو صرف ان ائمہ نے نقل کیا ہے جو ہر قسم کی حدیث موضوع ہو یا غیر، سب جمع کر دیتے ہیں ۔ ان روایات میں سب سے اہم حدیث وہ ہے جسے دار قطنی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے جبکہ اس کے ضعف پر کل اہلِ علم متفق ہیں ۔ لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلہ میں وارد احادیث مثل (من زادنی وزار ابی ابراھیم الخلیل فی عام واحد ضمنت له علی اللہ الجنة) جس نے میری اور میرے باپ ابراہیم علیہ السلام کی ایک ہی سال میں زیارت کی میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں اور (من زارنی بعد مماتی فکانما زارنی فی حیاتی) جس نے میری موت کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔ اور (من حج ولم یزرنی فقد جفانی) جس نے حج کیا لیکن میری زیارت نہ کی اس نے مجھ سے جفا کی۔ وغیرہ احادیث خود ساختہ جھوٹ ہیں ۔‘‘
(صاحب مقالہ) یہی صحیح و درست بات ہے کہ جس کے ساتھ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری واجب ہے، جس کسی کے پاس اس مسئلہ (کسی خاص قبر کی طرف سفر کرنے) کے بارے میں کوئی ایک صحیح حدیث بھی ہو اس پر اس کا بیان کرنا فرض ہے۔ (مزید افسوس یہ ہے کہ) جس قدر احادیث پیش کی گئی ہیں وہ سب یا تو بناوٹی جھوٹی ہیں یا صرف زیارتِ قبر (جس کے مشروع ہونے پر اجماع ہے) کے بارے میں ہیں ۔ قبر کی زیارت کی نیت سے سفر سے متعلق نہیں (حالانکہ مابہ النزاع قبر کی طرف سفر ہے نہ کہ زیارتِ قبر