کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 20
متابت نہیں کی۔ ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔ عقیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں ، اس کی حدیث غیر محفوظ ہے (شاذ) یہ حدیث ہم کو سعید بن محمد حضرمی نے سنائی جس کو فضالہ نے سنایا۔ اس نے محمد بن یحییٰ سے تحدیث کی، وہ ابن جریج سے، وہ عطاء سے اور وہ عبد اللہ بن عباس سے مرفوعاً روایت کرتا ہے: من زارنی فی مماتی کان کمن زارنی فی حیاتی یعنی جس نے میری عدم موجودگی میں میری زیارت کی ایسا ہے جیسا کہ اس نے میری زندگی میں زیارت کی۔ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’یہ حدیث ابن جریج پر جھوٹ ہے۔‘‘ 14. ما من احد من امتی له سعة ثم لم یزرنی فلیس له عذر میری امت میں سے صاحبِ استطاعت ہو کر بھی جو شخص میری زیارت نہ کرے اس کے لئے کوئی عذر مسموع نہ ہو گا۔ نقد و جرح: ابن نجار رحمہ اللہ نے اس حدیث کو تاریخ مدینہ میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں سمعان بن مہدی راوی ہے جس کے متعلق ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’سمعان بن مہدی انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے روایت کرنے والا گمنام جانور ہے۔ اس کے پاس ایک خود ساختہ احادیث کا نسخہ تھا جسے میں نے دیکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ ایسے گھڑنے والے کو ذلیل کرے۔‘‘ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں : ’’مذکورہ نسخہ محمد بن مقاتل رازی کی روایت سے ہے، وہ جعفر بن ہارون واسطی سے، وہ سمعان سے روایت کرتا ہے۔ پھر ابن حجر رحمہ اللہ نے اس نسخہ کا ذکر کیا ہے جو تین سو سے زیادہ موضوع احادیث پر مشتمل ہے۔‘‘ میں (صاحبِ مقالہ) کہتا ہوں ۔ یہ چودہ حدیثیں ہیں جن سے قبر کی طرف سفر کو جائز کہنے والے دلیل پکڑتے ہیں اور یہی وہ تمام احادیث ہیں جن سے مسجد نبوی کو چھوڑ کر صرف روضہ اقدس کی زیارت کا ثبوت پیش کیا جاتا ہے، جبکہ یہ بات کھل کر آپ کے سامنے آگئی ہے کہ ان روایات میں سے کوئی صحیح ہے نہ حسن بلکہ سب کی سب سخت ضعیف ہیں یا موضوع ہیں جن کا کوئی اصل نہیں ، جیسا کہ معتمد ائمہ حدیث کے تفصیلی تبصرے گزر چکے ہیں ۔ لہٰذا ان روایات کی کثرتِ تعداد اور متعدد سندوں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کیونکہ بسا اوقات ایسی احادیث جن کی سندیں مذکورہ بالا سندوں سے بھی کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں ۔ اس کثرت