کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 19
حدیث (روایت مذکورہ بالا) باطل ہے۔ اس حدیث کو بدر سے نعمان بن ہارون نے روایت کیا ہے۔ اس سب کمزوری کے باوجود ابو الفتح ازدی بھی ضعیف ہے۔ ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’(ابو الفتح ازدی) حافظ الحدیث تھا لیکن اس کی احادیث میں بہت سی منکرات موجود ہیں اسی لئے محدثین اسے ضعیف گردانتے ہیں ۔‘‘ خطیب بغدادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔ ’’اس پر حدیث گھڑنے کا الزام ہے۔ اسے برقانی نے ضعیف کہا ہے اور اہلِ موصل اسے کوئی مقام نہیں دیتے۔‘‘
13. من زارنی حتی ینتھی الٰی قبری کنت له یوم القیمة شھیدا او قال شفیعا
جو شخص میری زیارت کے لئے میری قبر تک پہنچا، میں قیامت کے دن اس کا گواہ (یا کہا) سفارشی ہوں گا۔
نقد و جرح:
یہ حدیث عقیلی رحمہ اللہ نے الضعفاء میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے اور اسی سند سے اسے ابن عساکر رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ یہ حدیث ابن جریج پر جھوٹ ہے۔ ابن عبد الہادی لکھتے ہیں : ’’اس کے متن اور سند میں غلطی ہوئی ہے‘‘ یعنی متن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’زیارت‘‘ سے ’’مَنْ زَارَنِیْ‘‘ بیان ہوا ہے۔ حالانکہ عبارت یوں ہے:
من راٰنی فی المنام کان کمن رانی فی حیاتی
یعنی جس نے نیند میں مجھے دیکھا ایسا ہے گویا اس نے مجھے زندگی میں دیکھا۔
عقیلی رحمہ اللہ کی کتاب میں نسخہ ابن عساکر رحمہ اللہ کے اندر من راٰنی رؤیا سے ہی مذکور ہے۔ اس صورت میں اس حدیث کا معنی صحیح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یوں موجود ہے:
من راٰنی فی المنام فقد رانی لان الشیطان لا یتمثل بی
یعنی جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری شکل میں نہیں آسکتا۔
رہا سند میں غلطی کا معاملہ تو وہ راوی کا ذِکر سعید بن محمد حضرمی نام سے ہوا ہے حالانکہ صحیح نام شعیب بن محمد ہے جس طرح کہ ابن عساکر کی روایت میں ہے۔ بہرحال مذکورہ بالا الفاظ سے یہ حدیث ثابت نہیں خواہ ’’زیارۃ‘‘ کے لفظ سے ہو یا ’’رؤیا‘‘ سے۔ کیونکہ اس کا راوی فضالہ بن سعید بن زمیل مزنی مجہول ہے اس کا ذِکر اس روایت کے سوا معروف نہیں اور اس روایت میں بھی وہ منفرد ہے جس کی کسی نے