کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 18
طالب علم بھی واقف ہے کہ یہ موضوع اور خود ساختہ ہے۔ اس قسم کے جھوٹ کو حقیقتِ حال کے انکشاف کے بغیر ذکر کرنا بھی اہلِ علم کے لئے بہت بڑا گناہ ہے ۔ [1]
12. من حج حجة الاسلام وزار قبری وغزا غزوۃ وصلّٰی علی فی بیت المقدس لم یساله اللہ فیما افترض علیه
جس نے اسلامی طریقہ پر حج کیا، میری قبر کی زیارت کی، جہاد میں شریک ہوا اور بیت المقدس میں مجھ پر درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس سے اس کی ذمہ داریوں میں کوئی پوچھ گچھ نہیں کرے گا۔
نقد و جرح:
اس حدیث کو ابو الفتح ازدی رحمہ اللہ نے اپنی فوائد کی دوسری جلد میں عبد اللہ بن ابی سہل مصیصی تک اپنی سند کے [2]ساتھ حسن بن عثمان زیادی سے روایت کیا ہے۔ ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے، بدر کی حسن بن عثمان زیادی سے
[1] یہاں شیخ موصوف ایک عام غفلت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ کسی غیر ثابت شدہ بات کو اس کا پول کھولے بغیر ذکر کرنا بھی بہت بڑا گناہ ہوتا ہے لیکن عام حقیقت کے بغیر ایسی باتوں کو قبول کر کے آگ ذکر کرتے رہے اور علماء اس کی حالت اور ضعف بیان کئے بغیر بیان کر دیتے ہیں حالانکہ محدثین کا یہ قاعدہ ہے کہ کسی حدیث کو بیان کرتے ہوئے اس کی صحت و ضعف ضرور ذکر کرتے ہیں اور اگر اس کی تصریح نہ کریں تو پھر ایسے لفظ اور انداز سے بیان کرت ہیں جس سے اس کی کمزوری واضح ہو جائے مثلاً صیغہ مجہول قیل یا روی وغیرہ کے ساتھ۔ محدثین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بات کے نسبت کرنے میں اس قدر احتیاط برتی ہے کہ اگر صحت و ضعف واضح نہ ہو سکے تو پھر بھی صیغہ تمریض کے ساتھ ہی بیان کریں گے بلکہ جو ضعیف حدیثیں مختلف وجوہات کی بنا پر تقویت حاصل کر لیتی ہیں انہیں بھی کسی یقینی نسبت سے ذکر نہیں کرتے۔ مقولہ معروف ہے۔ ’’يعمل عليه احتياطاً لا اعتقادًا‘‘ یعنی ایسی حدیث پر عمل بطور احتیاط ہو گا نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سمجھتے ہوئے کیونکہ اس بارے میں وعید کی متواتر حدیث موجود ہے: ’’من کذب علی متعمدا فقد تبوء مقعدہ من النار او کما قال علیه السلام‘‘ یعنی جو شخص جانتے ہوئے میری طرف جھوٹ کی نسبت کر دے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ اسی طرح آپ سے منقول ہے: ’’کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع‘‘ یعنی کسی شخص کو اتنا جھوٹ ہی کافی ہے کہ جو سنے بیان کر دے۔۔۔۔۔۔ (مترجم)
[2] مطبوعہ عربی متن میں ’’من فوائدہٖ‘‘ کے بعد ’’بسندہٖ‘‘ کا لفظ طباعت سے رہ گیا تھا۔ یہ اس کا ترجمہ ہے۔ (مدیر)