کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 17
کذّاب ہے۔ نیز ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔ ’’اس شخص کی منکرات بہت ہیں کیونکہ وہ باتونی تھا۔‘‘ لکھتے ہیں ۔ ’’فلاس نے اسے کذاب کہا ہے۔‘‘ اور بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’محدثین نے اس سے خاموشی اختیار کی ہے‘‘ (یعنی نکما سمجھ کر حدیث نہیں لی) ابن ابی شیبہ نے اس پر جھوٹ گھڑنے کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب بھی بیان کی گئی ہے لیکن اس کی سد میں عبد الملک بن ہارون بن عنترہ ہے اور جھوٹ گھڑنے کے ساتھ متہم ہے۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں : ’’کذّاب ہے۔‘‘ ابو حاتم کہتے ہیں : نکمی باتوں والا اور متروک ہے۔‘‘ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’کذّاب ہے۔‘‘ اور ذہبی لکھتے ہیں : ’’اس پر حدیث (من صام یوما من ایام البیض عدل عشرۃ اٰلاف سنة یعنی جس نے ایّام بیض (تیرہ، چودہ اور پندرہ) کے روزے رکھے اسے دس ہزار سال کے روزوں کا ثواب ملے گا) گھڑنے کاالزام ہے۔‘‘ (صاحب مقالہ لکھتے ہیں :) ’’اس عبدالملک بن ابی عمرو کذّاب کی طرف سے بہت سی آفتیں ہیں جن کو ذہبی رحمہ اللہ کی میزان الاعتدال میں دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘ 10. من اتی المدینة زائراً لی وجبت له شفاعتی (الحدیث) جو شخص مدینہ میں میری زیارت کے لئے آیا اس کے لئے میری سفارش ضروری ہو گئی۔ نقد و جرح: اسے یحییٰ الحسنی نے بکیر بن عبد اللہ سے مرفوعاً بیان کیا ہے، اس کے بارے میں عبد الہادی لکھتے ہیں : ’’یہ حدیث باطل ہے جس کا کوئی اصل نہیں ۔‘‘ علاوہ ازیں یہ مفید مطلب نہیں کیونکہ اس میں قبر کی طرف سفر کا ذکر نہیں ۔ (احتمال ہے کہ زندگی میں آنا مراد ہو) 11. من لم تمکنه زیارتی فلیزر قبر ابراھیم الخلیل جو شخص میری زیارت نہ کر سکے اسے چاہئے کہ ابراہیم خلیل اللہ کی قبر کی زیارت کر لے ۔ [1] نقد و جرح: ابن عبد الہادی کہتے ہیں ۔ یہ جھوٹ اور من گھڑت احادیث میں سے ہے اور اس سے تو ایک معمولی
[1] اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہ ہو سکنے کی صورت میں ابراہیمؑ کی قبر کی زیارت کی ترغیب دی گی ہے جس سے دوسرے بزرگوں کی قبروں کی زیارت مستحسن ثابت ہوتی ہے۔ حدیث من گھڑت ہے۔