کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 16
نقد و جرح:
نووی رحمہ اللہ نے ’’المجموع‘‘ (شرح المہذب) میں لکھا ہے، ’’یہ حدیث بناوٹی ہے جس کا کوئی اصل نہیں اور اسے ائمہ حدیث میں سے بھی کسی نے روایت نہیں کیا۔‘‘
8. من جاءنی زائر الم تنزعه حاجة الا زیارتی کان حقا علی ان اکون له شفیعا یوم القیٰمة جو شخص میری (قبر کی) زیارت کے لئے آیا اور اسے میری زیارت کا شوق ہی کھینچ کر لایا ہو تو اس کا مجھ پر یہ حق ہو جاتا ہے کہ قیامت کے روز میں اس کا سفارشی ہوں ۔
نقد و جرح:
اس حدیث کو ابن نجار رحمہ اللہ نے ’’الدرۃ الثمینہ فی تاریخ المدینہ‘‘ میں اور دار قطی نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ اس کی سند میں مسلمہ بن سالم ہے جس کے بارے میں ذہبی رحمہ اللہ نے ’’دیوان الضعفاء‘‘ میں کہا ہے اس میں جمیہ کی طرف میلان ہے۔ ابن عبد الہادی ’’الصارم المنکی‘‘ میں لکھتے ہیں : یہ ’’مجہول الحال ہے۔ نقلِ علم میں معروف نہیں اور اس کی روایت کے ساتھ حجت پکڑنا بھی ٹھیک نہیں ۔ وہ موسیٰ بن ہلال عبدی، جس کا ذکر ہو چکا ہے کی مانند ضعیف ہے۔‘‘
9. من لم یزر قبری فقد جفانی
جس نے میری قبر کی زیارت نہ کی اس نے مجھ سے جفا کی۔
نقد و جرح:
ابن نجار رحمہ اللہ نے اس حدیث کو تاریخ المدینہ میں بے سند او صیغۂ تمریض (جو کمزوری کی طرف اشارہ ہوتا ہے) کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کے الفاظ یوں ہیں :
وروی عن علی قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (الحدیث)
ابن عبد الہادی رحمہ اللہ کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے منسوب یہ حدیث بناوٹ اور جھوٹ ہے۔ میں کہتا ہوں ، اس کی سند میں نعمانِ بن شبل باہلی متّہم ہے۔ ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’وہ آفتیں لاتا ہے۔‘‘ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کا ذِکر ’’میزان الاعتدال‘‘ میں کیا ہے۔ نیز اس کی سند میں محمد بن فضل بن عطیہ مدینی ہے جو مشہور جھوٹا اور گھڑنے والا ہے۔ ذہبی رحمہ اللہ نے میزان الاعتدال میں یہ بھی لکھا ہے۔ ’’امام احمد کہتے ہیں ۔ اس کی حدیث جھوٹوں کی حدیث ہے۔‘‘ اور ابن معین کہتے ہیں ۔ ’’فضل بن عطیہ (باپ) ثقہ ہے اور اس کا بیٹا محمد