کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 15
5. من زار قبری او قال من زارنی کنت له شفیعا او شھیا ومن مات باحد الحرمین بعثه اللہ من الاٰمنین یوم القیمة
جس نے میری قبر کی زیارت کی یا فرمایا، جس نے میری زیارت کی، میں (قیامت کے دن) اس کا سفارشی یا گواہ ہوں گا۔ اور جو حرمین (مکہ و مدینہ) میں سے کسی جگہ فوت ہوا اللہ تعالیٰ اسے میدانِ حشر میں امن والوں میں سے اُٹھائے گا۔
نقد و جرح:
اس حدیث کو ابو داؤد و طیالسی رحمہ اللہ نے اپنی ’’مسند‘‘ میں عمر بن خطاب سے روایت کیا ہے۔ اس کے سلسلۂ رواۃ میں ایک راوی مجہول ہے جس کی سند حسب ذیل ہے:
قال ابو داؤد: حدثنا سوار بن میمون ابو الجرّاح ۔۔۔۔۔۔ قال حدثنا رجل من اٰل عمر عن عمر قال سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔ (الحديث)
(يعنی سند ميں آل عمر سے ’’رجل‘‘ (كوئی شخص) مجہول ہے)
6. من زارنی بعد موتی فکانما زارنی فی حیاتی ومن مات باحد الحرمین بعث من الاٰمنین یوم القیامة
جس نے میری موت کے بعد میری (قبر کی) زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی اور جو حرمین میں سے کسی جگہ فوت ہوا قیامت کے دن امن والوں میں سے اُٹھایا جائے گا۔
نقد و جرح:
اس حدیث کو دار قطنی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں اور ابن عساکر رحمہ اللہ نے حاطب سے روایت کیا ہے۔ اس کی سند میں ہارون بن قزعہ یا قزعہ ابن ابی قزعہ راوی ہے۔ جس کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’اس کی اس حدیث پر کسی نے متابعت نہیں کی اور قزعہ کا شیخ بھی مجہول ہے۔‘‘ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’میزان الاعتدال‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ حاطب کی مذکورہ حدیث اور عمر کی حدیث جو اس سے پہلے گزری ہے۔ قزعہ بن ابی قزعہ کی منکرات سے ہیں ۔
7. من زارنی وزار ابی ابراھیم فی عام واحد دخل الجنة
جس نے میری اور میرے باپ ابراہیم علیہ السلام کی (قبروں کی) ایک ہی سال میں زیارت کی، وہ جنت میں داخل ہو گا۔