کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 14
نقد و جرح:
اسے طبرانی رحمہ اللہ اور بیہقی نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں حفص بن سلیمان القاری ہے جس کے متعلق ابن عدی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس پر جھوٹی حدیثیں گھڑنے کا الزام ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’وہ متروک الحدیث ہے۔‘‘ بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں ، ’’ائمہ حدیث نے اسے ترک کیاکر دیا ہے۔‘‘ ابن خراش رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’جھوٹا ہے حدیثیں گھڑتا ہے‘ ‘ اور ذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس کے منکرات میں شمار کیا ہے، کہتے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الضعفاء میں تعلیقاً اس کے حالات کے بیان میں یوں کہا ہے: ابن ابی القاضی رحمہ اللہ کہتے ہیں ہم کو سعید بن منصور نے حدیث سنائی، وہ کہتے ہیں ہم کو حفص بن سلیمان نے لیث سے، انہوں نے مجاہد سے انہوں نے عبد اللہ بن عمر سے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرتے ہیں جس نے حج کیا اور میری موت کے بعد میری زیارت کی۔۔۔۔ الخ (یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے اس راوی کو کتاب الضعفاء میں ذکر کر کے وہاں اس حدیث کا ضعف بھی بیان کر دیا۔)
3. من زارنی بالمدینة محتسبا کنت له شھیدا او شفیعا یوم القیامة
جس نے ثواب کی خاطر مدینہ میں میری زیارت کی، میں روزِ قیامت اس کا گواہ اور سفارشی ہوں گا۔
نقد و جرح:
اس حدیث کو بیہقی رحمہ اللہ نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اس کی سند میں ابو المثنی سلیمان بن یزید الکعبی ہے جس کے بارے میں ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’وہ متروک ہے۔‘‘ ابو حاتم کہتے ہیں : ’’منکر الحدیث ہے‘‘ اور ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’اسے قابلِ حجت ماننا درست نہیں ۔‘‘
4. من حج ولم یزرنی فقد جفانی
جس نے حج کیا اور میری (قبر کی) زیارت نہ کی اس نے مجھ سے زیادتی کی۔
نقد و جرح:
امام سخاوی رحمہ اللہ نے ’’المقاصد الحسنہ‘‘ میں لکھا ہے: یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ ابن عدی رحمہ اللہ نے اسے ’’الکامل‘‘ میں ، ابن حبان رحمہ اللہ نے الضعفاء میں ، دار قطنی نے ’’العلل‘‘ اور غرائب مالک میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’میزان الاعتدال‘‘ میں لکھا ہے: ’’بلکہ یہ حدیث موضوع ہے۔‘‘