کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 13
ہے لیکن متاخرین میں سے بعض نام نہاد علماء روضۂ اطہر یا دوسری قبروں کی طرف سفر جائز ثابت کرنے کے لئے بعض دلائل اور احادیث کا سہارا لیتے ہیں حالانکہ وہ یا تو موضوع (بناوٹی) ہیں یا بہت کمزور جس سے شرعی مسائل ثابت نہیں ہو سکتے جیسا کہ علمائے محققین کے ہاں معروف ہے تاہم میں ایسی احادیث کا ذِکر بتوفیقِ الٰہی ان ائمہ کے باطل یا نہایت کمزور قرار دینے کے ساتھ کرتا ہوں جو اس معاملہ میں سند ہیں ۔ سفر کو جائز قرار دینے والوں کی طرف سے پیش کی جانے والی چودہ حدیثیں اور ان کے مفید مطلب نہ ہونے کے دلائل 1. من زار قبری وجبت له شفاعی جس نے میری قبر کی قیارت کی اس کے لئے میری سفارش ضروری ہو گئی۔ نقد و جرح: اس حدیث کو ابو الشیخ اور ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن عمر سے روایت کیا ہے اور یہ حدیث ابن خزیمہ رحمہ اللہ میں بھی ہے اور امام موصوف نے اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے، کہتے ہیں : ’’اس کی سند کے بارے میں میرے دل میں کھٹکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس میں اس کی ذمہ داری سے بری ہوں ۔‘‘ میں کہتا ہوں اس میں دو راوی مجہول ہیں ۔ (الف) عبد اللہ بن عمر العمری جس کے بارے میں ابو حاتم نے کہا ہے، وہ مجہول ہے۔ (ب) موسی بن ہلال البصری۔ اسے ابو حاتم نے مجہول کہا ہے اور بقول عقیلی رحمہ اللہ اور ذہبی رحمہ اللہ محدثین نے اس کی حدیث کا انکار کیا ہے۔ ایک روایت میں ’’وجبت‘‘ کی بجائے ’’حلت‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ (مختصراً) 2. من حج فزار قبری بعد وفاتی کان کمن زارنی فی حیاتی جس نے میری وفات کے بعد حج کیا پھر میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔ (بقیہ حاشیہ)کیے بغیر قبروں کی عام زیارت مستحسن ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگوں کی قبریں بھی داخل ہیں کیونکہ اس سے انسان کو موت اور آخرت یاد آتی ہے (کہ جب اتنے بڑے بڑے آدمی بھی ہمیشہ دنیا میں نہ رہے تو ہمیں بھی دنیا سے دل نہ لگانا چاہئے) عورتوں کے لئے صرف زیارت کی بھی اجازت اس لئے نہیں دی کہ وہ جزع و فزع بہت کرتی ہیں اور ان کے اوہام میں مبتلا ہو کر شرک میں مبتلا ہونے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ چند ایک احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی عورت عاملہ صابرہ ہو تو کسی ضرورت کی خاطر اسے اجازت مل سکتی ہے جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک سفر کے دوران اپنے بھائی عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی قبر پر آنا ثابت ہے۔ زیارت کے وقت انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں تیری موت کے وقت موجود ہوتی تو پھر قبر پر نہ آتی۔ اسی طرح ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک قبر کے پاس سے ہوا جہاں ایک عورت نوحہ کر رہی تھی۔ آپ نے اسے صبر کی تلقین کی لیکن قبر پر آنے پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ حدیث میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صبر کی تلقین اور ثواب کی امید دلائی اور اس نے چڑ کر کہا کہ تو اگر میری جگہ ہوتا تو میں پھر دیکھتی۔۔۔۔