کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 12
اسی طرح کسی مخصوص قبر کی طرف سفر کے لئے کمر بستہ ہونا بھی ممنوع ہے جیسا کہ بخاری مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تشد الرحال الا الٰی ثلثة مساجد (الحدیث) کہ تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور مقام کے لئے (بغرض زیارت) کچاوے نہ کسے جائیں ۔ یعنی مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) کی طرف سفر جائز ہے۔ علاوہ ازیں کسی دوسری جگہ کے لئے صرف اسی کی نیت کرتے ہوئے سفر کرنے سے منع فرما دیا۔ لہٰذا صورتِ ممنوعہ یہ ہے کہ زیارت کرنے والا مسجد نبوی کو چھوڑ کر صرف روضہ شریف کا قصد کرے لیکن اگر زائر اصل سفر مسجد نبوی کی نیت سے کرے پھر روضہ کی زیارت بھی کر لے تو اس صورت میں زیارتِ قبر میں کوئی حرج نہیں ۔ جیسا کہ صرف مردوں کے لئے قبروں کی زیارت کے لئے اجازت پہلے ذکر ہو چکی ہے۔ واضح رہے (ہم نے روضہ کی زیارت کا معاملہ عمومی زیارتِ قبر کے ساتھ اس لئے رکھا ہے) کہ کسی صحیح حدیث میں (خود صاحب روضہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی مخصوص قبر کی طرف سفر کی اجازت ثابت نہیں ہو سکی جبکہ ممانعت کا حکم آپ نے عام صادر فرمایا جس میں اپنی قبر اور دوسروں کی قبور کو برابر رکھا یہی وجہ ہے کہ کسی (زیادہ سے زیادہ دلدادہ) صحابی اور بھلائیوں میں ان کے پیچھے لگنے والے تابعی سے منقول نہیں ہے کہ اس نے صرف روضہ یا کسی دوسرے کی قبر کا سفر اختیار کیا ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ: من عمل عملا لیس علیه امرنا فھو رد جو شخص ایسا عمل کرے جس پر ہم عمل پیرا نہ ہوئے ہوں وہ کام راندہ اور بدعت ہے ۔ [1] بھلائی اور نیکی تو صرف سلف صالحین کی پیروی میں ہی ہے اور پچھلوں کی اختراعات کو اپنانا برائی ہی ہے ۔[2] مسئلہ تو یہی
[1] یہ اگرچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے لیکن مختلف روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سے ملتے جلتے الفاظ آئے ہیں جنہیں امام احمد اور مسلم وغیرہ نے مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے گویا یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہی ہے۔ مطبوعہ عربی زبان میں عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ غلطی سے درج ہو گئے ہیں۔ مدیر [2] خلاصہ کلام یہ ہے کہ قبروں کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ آپ نے اس سے منع فرمایا ہے لیکن اصطلاحی سفر اختیار(جاری ہے)